نیم خاک و نیم آب
اے وصالِ آب و گِل ، اے رمزِ دل
اے سمندر کی سفیرِِ خوشنوا
تجھ سے مل کر ہوں میں خود پر منکشف
مجھ سے بڑھ کر تُو ہے میری آشنا
تیرے گیتوں سے فضا میں چار سُو
صفحہ در صفحہ مرے دل کی کتاب
اے تہِ دل کی مکیں ، اے نازنیں
اے مری تنہائیوں کی راز داں
اے مری کیفیتِ خواب و خبر
نیند اور بیداریوں کے درمیاں
تیری آوازوں سے مجھ میں مرتعش
گہرے نیلے رنگ کی یہ سطحِ خواب
میں ترا دکھ جانتا ہوں میری دوست
کوئی تجھ سا ہے نہ مجھ سا اور ہے
ایک دنیا میں بسر کرتا ہوں میں
پھر بھی میری اصل دنیا اور ہے
اصل دنیا ، کون سی دنیا میں ہے ؟
اے جہانِ زود ہجر و دیر یاب
کچھ لکیریں میری پابندی نے بھی
کھینچ رکھی ہیں حدِ ادراک پر
نیل گُوں قلزم سے میں بھی دن ڈھلے
لوٹ آتا ہوں سنہری خاک پر
کاٹتا ہوں دو جہانوں کی تھکن
جھیلتا ہوں دو زمانوں کے عذاب
دیکھنے ہیں مجھ کو بھی اس دیس میں
نقرئی مٹی ، سنہرے زرد باغ
چلتی پھرتی روشنی ،جگمگ بدن
مچھلیوں کے روپ میں جلتے چراغ
سانس لینا چاہتا ہوں میں جہاں
سانس لیتی بستیاں ہیں زیرِ آب
جل ہری اے جل ہری اے جل ہری
دل کے رازوں سے مجھے آگاہ کر
آب خوردہ خواہشیں ، نم دیدہ غم
ان جہازوں سے مجھے آگاہ کر
جو کہیں گہرائیوں میں غرق ہیں
تہ بہ تہ خاموشیوں میں محوِ خواب
اے مری صبحِ ازل ، شامِ ابد
اے مری وارفتگی ، اے شاعری
اے مرے موجود ہونے کی دلیل
شاعری ، اے جھٹپٹے کی روشنی
اے نگارِ نیم روز و نیم شب
اے وجودِ نصف خاک و نصف آب