جاوداں اشک فشانی لکھ کر
جا چُکا ہے وہ نشانی لکھ کر
حرف حرف اُترا اذیّت میں تَر
نوکِ نشتر سے کہانی لکھ کر
سوچ میں ڈوبی ہوئی ہے لڑکی
اپنے اک ہاتھ پہ رانی لکھ کر
ہم سفر چھوڑ گئے رستے میں
ہر قدم نقل مکانی لکھ کر
خود فریبی کے سوا کُچھ بھی نہیں
اوک پھیلائی ہے پانی لکھ کر
رائگانی میں شب و روز کٹے
ضعف روتا ہے جوانی لکھ کر
سالہا سال میں لمحے بیتے
ایک جملے میں کہانی لکھ کر
سمیرؔ شمس