ان آنکھوں کو سپنے دکھائے تو ہوتے
کبھی تم نے دیپک جلائے تو ہوتے
قدم روکتا کب سیہ پوش جنگل
امیدوں کے جگنو اڑائے تو ہوتے
پہنچتی اتر کر حسیں وادیوں میں
پہاڑوں پہ رستے بنائے تو ہوتے
سمندر کو صحراؤں میں لے کے آتے
کچھ انداز اپنے سکھائے تو ہوتے
لئے میں بھی کچا گھڑا منتظر تھی
تم اس پار دریا پہ آئے تو ہوتے
سرِ عام دربار میں رقص کرتی
روایت کے نغمے سنائے تو ہوتے
کوئی ہو بھی سکتا تھا نیناں گلی میں
دریچے سے پردے ہٹائے تو ہوتے
فرزانہ نیناں