خوشیوں پہ وبالوں کا گماں ہونے لگا ہے
جانسوز خیالوں کا گماں ہونے لگا ہے
ڈرتی ہوں کہ آنسو نہ جوابوں میں امڈ آئیں
آنکھوں میں سوالوں کا گماں ہونے لگا ہے
ان اونچی اڑانوں سے معلق ہوں فضا میں
پھر مجھ کو زوالوں کا گماں ہونے لگا ہے
اک روز گزرتا ہے کچھ اس حال میں میرا
اک رات پہ سالوں کا گماں ہونے لگا ہے
پھول اس نے مرے لان پہ جو زرد بچھائے
نیناں میں ملالوں کا گماں ہونے لگا ہے
فرزانہ نیناں