ہے ایک سیلِ ندامت اس آبگینے میں
عجیب ہے یہ سمندر کہ ہے سفینے میں
اسی زمیں اسی مٹی سے نور پھوٹا تھا
اسی دیار ، اسی رُت ، اسی مہینے میں
ہے بند آنکھ میں بھی عکسِ مسجدِ نبوی
جڑا ہوا ہے یہی خواب اس نگینے میں
کسی نے اسمِ محمد پڑھا تو ایسا لگا
کہ جیسے کوئی پرندہ اُڑا ہو سینے میں
میں ایک بے ادب و کم شناس اعرابی
سلگتے دشت سے آیا ہوا مدینے میں
مہِ حجاز کھلے آسماں میں ہے اور میں
بھٹک رہا ہوں کسی بے چراغ زینے میں
پلٹ کے آیا نہیں جنت البقیع سے میں
گڑا ہوا ہے مرا دل اسی دفینے میں
کسی حدیث کی خوشبو مجھے بتاتی ہے
مہک گلاب کی تھی آپ کے پسینے میں
سعود یوں بھی تو ممکن ہے حاضری لگ جائے
میں اپنے شہر میں ہوں اور دل مدینے میں
سعود عثمانی