ایک دعا ہریالی کی
وردوں کی ہم (hummmmmmm)
مدھم مدھم
دیواریں لرزاتی ہے۔
لال اگر بتیوں کی سر چکرانے والی بھاری بھاری باس
دھواں بن کر اڑتی ہے۔
سبز ملنگوں کی گردن میں
کالے منکوں کی مالائیں
چوغوں کے اندھیارے شیشوں سے ٹکرائیں
کند جھنک دیں۔
سرد ستون
عقیدت مندوں کے لمسوں سے میلے میلے
طاق
چراغوں کے رستے روغن کے نم سے گیلے گیلے
آسودہ، مخمور کبوتر
گنبد جن کا آنگن ہے اور آنگن جن کا تہ خانہ ہے۔
چوڑی چوکھٹ والا شہ دروازہ
بھرے ہوئے لوگوں سے بھرا ہوا ہے۔
پیر سائیں ۔۔۔۔۔ !!!
وہ عورت تھی یا ساحرہ تھی
جب اس نے تیرے دربار میں اپنے ننگے پاؤں دھرے
تو
تیرے فرش کے مرمر نے رنگت بدلی۔
دیکھنے والے ٹھہر گئے
اور سننے والے چلنے لگے۔
اس نے اپنے مخروطی انگشتوں والے ہاتھوں کا کشکول بنایا
اور لرزتے ہونٹوں سے سرگوشی کی۔
"بابا۔۔۔۔۔۔۔!!
دیکھ، میں باہر سے کتنی آباد ہوں
لیکن میرے اندر اک ویرانہ ہے۔
میری کوکھ میں مٹی اڑتی رہتی ہے۔
پیرا۔۔۔۔۔۔۔!!!
اس میں کالے کالے بادل بھیج۔
شوکریں مارتی بارش کر
سوندھی سوندھی باس جگا
دونوں ہاتھ جما کر کھینچ۔
وتر والی مٹی پھاڑ
چھوٹی بڑی دراڑیں ڈال،
تاکہ کوئی کونپل اس میں جڑ پکڑے۔
ہلکورے لے
دھڑ پکڑے۔
سائیں مجھے ہریالی دے،
پھولنے پھلنے والی دے۔”
وحید احمد