دل پہ ہے جب سے دباؤ یاد کا
چشمِ تر سے ہے بہاؤ یاد کا
سرد راتوں میں میسر ہے تپش
دل میں روشن ہے الاؤ یاد کا
رونقیں محسوس ہوں گی ارد گرد
تم بھی اک عالَم بساؤ یاد کا
مجھ کو لے جاتی ہے گزرے وقت میں
دلنشیں ہے رکھ رکھاؤ یاد کا
گر تمھیں انکار ہے مجھ سے تو پھر
کیا کروں گی مَیں؟ بتاؤ یاد کا
بےوفا نے مشورہ بھیجا مجھے
اب تو قصہ بھول جاؤ یاد کا
منزہ سیّد