اے دست کار! اسی کن پہ دست کار بنا
گھڑے کو چھوڑ, گھڑے کی جگہ کمھار بنا
وہ رقص ہو کہ یہ رستہ پڑاؤ ہو جاۓ
میں خاک چھان کے لاتی ہوں تو غبار بنا
تری تراش میں خامی ہے یا کہ پتھر میں
یہ عقدہ یونہی کھلے گا بس ایک بار بنا
چل آسکھاؤں تجھے عشق عشق کھیلنا میں
میں دوری ناپتی ہوں تو فراق یار بنا
یہ دشت ہجر دلوں کو نہیں پسند آیا
طلب یہ ہے کہ یہاں ایک سبزہ زار بنا
غزل کا دہلوی اسلوب میں بناتی ہوں
تو اک مغنی بنا , دھن بنا , ستار بنا
فرح گوندل