جو زندگی کے ہر ایک دھارے میں جاگتا ہے
ترا بدن اس چراغ پارے میں جاگتا ہے
گریز کیسے کرے گا میرے وجود سے تو
کہ تیرا سورج مرے ستارے میں جاگتا ہے
مجھے خبر ہے خموش سویا ہوا یہ دریا
کہیں کسی دوسرے کنارے میں جاگتا ہے
بہت کٹھن تو نہیں ہے سچ کو تلاش کرنا
کہ یہ لہو کے ہر استعارے میں جاگتا ہے
وہ شخص یوں ہی نہیں مرے ساتھ چلنے والا
کہیں کوئی فائدہ خسارے میں جاگتا ہے
قمر رضا شہزاد