آپ کا سلاماردو غزلیاتشعر و شاعری

اس کے بھی تو ہاتھ میں پیسہ

افسر علی افسر کی ایک اردو غزل

اس کے بھی تو ہاتھ میں پیسہ ہو سکتا ہے

وہ بھی ظالم دنیا جیسا ہو سکتا ہے

ہو سکتا ہے اس کی بھی کچھ مجبوری ہو

ہو سکتا ہے پیار میں ایسا ہو سکتا ہے

ان کو بھی تو خوابوں کی تعبیر ملی ہے

ہم بھی جیسا سوچیں ویسا ہو سکتا ہے

مجھ کو ٹھکرا کر وہ شاید بھول گیا ہے

کل کو اس کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے

جس کو دیکھ کے تم بھی پتھر بن جاؤ گے

اس کو ذہن میں سوچو کیسا ہو سکتا ہے

تم سے بچھڑے اب تو عرصہ بیت گیا ہے

اب تک سوچ رہا ہوں ایسا ہو سکتا ہے

افسر علی افسر

افسر علی افسر

میرا نام سید افسر علی اور تخلص افسر علی افسر ہے تقریباً 40 سال سے زیادہ عرصہ ہوا شاعری کرتے ہوئے میری پہلی کتاب سر نیم شب 2022 میں کراچی سے شائع ہوئ اور دو کتابیں ابھی زیر ترتیب ہیں۔ میں 1968 میں بہاولپور میں پیدا ہوا اور 1972 میں ہماری فیملی ملتان شفٹ ہوئ جہاں میں نے زندگی کے 45 سال گزارے اور 2017 میں فیملی کے ساتھ کراچی شفٹ ہوگیا اور تا حال کراچی میں ہوں۔ 1984 میں میرے کالج کی سلور جوبلی تقریبات منعقد جس میں محفل مشاعرہ میں شرکت کی یہ میری زندگی کا پہلا مشاعرہ تھا اسکے بعد 1988 میں گوورنمٹ کالج لاہور کی صد سالہ تقریبات منعقد ہوئ جس میں پورے پاکستان سے طلبہ و طالبات کو شرکت کی دعوت دی گئ جس میں آل پاکستان مشاعرے میں میں نے زکریا یونیورسٹی ملتان کی نمائندگی کرتے ہوئے پہلی پوزیشن حاصل کی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button