دروازے پر قفل پڑا ہے
کون اس پر دستک دیتا ہے
تنہائی ہے تیز ہوا ہے
میرا غم سوکھا پتا ہے
دور تلک پھیلا یہ صحرا
کس کا رستہ دیکھ رہا ہے
رستے سے کچھ دور بسی اک
تنہائی کی محل سرا ہے
تیری یاد وہاں بکھری تھی
میرا درد یہاں پھیلا ہے
پیچھے زخموں کا جنگل تھا
آگے خون کا اک دریا ہے
پھول خزاں میں مرجھاتے ہیں
میرے دل کا پات ہرا ہے
چونک گئی ہوں جیسے سچ مچ
میرے پیچھے کوئی کھڑا ہے
لمس تیرا نہ کہیں کھو جائے
مٹھی کھولتے ڈر لگتا ہے
اب تو کسی کا آنا مشکل
آدھی رات ہے،سرد ہوا ہے
ثمینہ راجہ