میر تقی میر
میر تقی میر (پیدائش: 28 مئی 1723ء— وفات: 22 ستمبر 1810ء) اصل نام میر محمد تقى اردو كے عظیم شاعر تھے۔ میر ان کا تخلص تھا۔ اردو شاعرى ميں مير تقى مير كا مقام بہت اونچا ہے ـ انہیں ناقدین و شعرائے متاخرین نے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا۔ وہ اپنے زمانے كے ايك منفرد شاعر تھےـ آپ كے متعلق اردو كے عظیم الشان شاعرمرزا غالب نے لکھا ہے۔
؎
ریختہ كے تمہی استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے ميں كوئى مير بھی تھا
-
کیا چہرے خدا نے دیے ان خوش پسروں کو
میر تقی میر کی ایک غزل
-
ملا یا رب کہیں اس صید افگن سربسر کیں کو
میر تقی میر کی ایک غزل
-
مطرب نے پڑھی تھی غزل اک میر کی شب کو
میر تقی میر کی ایک غزل
-
لا میری اور یارب آج ایک خوش کمر کو
میر تقی میر کی ایک غزل
-
جوں غنچہ میر اتنے نہ بیٹھے رہا کرو
میر تقی میر کی ایک غزل
-
مت سگ یار سے دعواے مساوات کرو
میر تقی میر کی ایک غزل
-
لائق نہیں تمھیں کہ ہمیں ناسزا کہو
میر تقی میر کی ایک غزل
-
سب سرگذشت سن چکے اب چپکے ہو رہو
میر تقی میر کی ایک غزل
-
تاچند انتظار قیامت شتاب ہو
میر تقی میر کی ایک غزل
-
خدا کرے کہ بتوں سے نہ آشنائی ہو
میر تقی میر کی ایک غزل
-
ظالم ہو میری جان پہ ناآشنا نہ ہو
میر تقی میر کی ایک غزل
-
رکھیے گردن کو تری تیغ ستم پر ہو سو ہو
میر تقی میر کی ایک غزل
-
ٹک لطف سے ملاکر گو پھر کبھو کبھو ہو
میر تقی میر کی ایک غزل
-
ہر صبح شام تو پئے ایذاے میر ہو
میر تقی میر کی ایک غزل
-
برسوں میں کبھو ایدھر تم ناز سے آتے ہو
میر تقی میر کی ایک غزل
-
نہ میرے باعث شور و فغاں ہو
میر تقی میر کی ایک غزل
-
منعقد کاش مجلس مل ہو
میر تقی میر کی ایک غزل
-
بدزباں ہو جیسے خوش اسلوب ہو
میر تقی میر کی ایک غزل
-
گل برگ سے ہیں نازک خوبی پا تو دیکھو
میر تقی میر کی ایک غزل
-
اب اسیری سے بچیں تو دیکھیں گے گلشن کبھو
میر تقی میر کی ایک غزل