اردو غزلیاتشعر و شاعریمیر تقی میر

نہ میرے باعث شور و فغاں ہو

میر تقی میر کی ایک غزل

نہ میرے باعث شور و فغاں ہو
ابھی کیا جانیے یاں کیا سماں ہو

یہی مشہور عالم ہیں دوعالم
خدا جانے ملاپ اس سے کہاں ہو

جہاں سجدے میں ہم نے غش کیا تھا
وہیں شاید کہ اس کا آستاں ہو

نہ ہووے وصف ان بالوں کا مجھ سے
اگر ہر مو مرے تن پر زباں ہو

جگر تو چھن گیا تیروں کے مارے
تمھاری کس طرح خاطر نشاں ہو

نہ دل سے جا خدا کی تجھ کو سوگند
خدائی میں اگر ایسا مکاں ہو

تم اے نازک تناں ہو وہ کہ سب کے
تمناے دل و آرام جاں ہو

ہلے ٹک لب کہ اس نے مار ڈالا
کہے کچھ کوئی گر جی کی اماں ہو

سنا ہے چاہ کا دعویٰ تمھارا
کہو جو کچھ کہ چاہو مہرباں ہو

کنارہ یوں کیا جاتا نہیں پھر
اگر پاے محبت درمیاں ہو

ہوئے ہم پیر سو ساکت ہیں اب میر
تمھاری بات کیا ہے تم جواں ہو

میر تقی میر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button