ابلیس کے نام
کس درجہ انوکھا ترا اندازِ جفا ہے
ابلیس ! تو انکار کی جرأت کا خدا ہے
تو منکرِ تخلیقِ خدا ، منکرِ تصدیق
انکار ترا وصف ہے یہ وصف کی توثیق
تھا سجدۂ اقرار تری ذات کا اثبات
لیکن ہے ’’نفی‘‘ تیرے لیے وقت کی سوغات
تو نار کے زمرے میں رہا نور سے بیزار
پھر کیسے کھلیں تجھ پہ کسی رمز کے اسرار
اے کاش! کہ تو سجدۂ خاکی کو سمجھتا
پھر اپنی زباں لہجۂ شاکی کو سمجھتا
محصور ہے تو اپنی پرستش میں ، اَنا میں
دیوار بھی رکھتا ہے سدا قصرِ خدا میں
اُس ذات میں تو جذب ہو، امکاں تو بہت تھا
ارمانِ ملاقات کا ساماں تو بہت تھا
لیکن تجھے اس بات کا احساس نہیں تھا
کُچھ عشق و محبت کا تجھے پاس نہیں تھا
تو غرق ہوا کبر و ریا شورِ اَنا میں
اب خاک اُڑا چاروں طرف خاک سرا میں
شازیہ اکبر