اردو غزلیاتشعر و شاعریقیصرالجعفری

مجھے کوئی کیوں سمیٹے مری

قیصرالجعفری کی ایک اردو غزل

مجھے کوئی کیوں سمیٹے مری روشنی میں کیا ہے
وہ چراغ رہ گزر ہوں جو پس سحر جلا ہے

کوئی ایسا حادثہ ہو کہ مجھی کو دفن کر دے
جو ترس ترس کے برسے وہ غبار درد کیا ہے

ترے ذہن کا دھواں بھی نہ چھپا سکا وہ منظر
جسے کاٹ کر گرایا وہ شجر وہیں کھڑا ہے

مجھے کیا دکھا رہے ہو مرا داغ نارسائی
مری جستجو سے پوچھو کوئی راستہ بچا ہے

مجھے ڈر ہے آسماں بھی کہیں زد میں آ نہ جائے
تہ خاک جو لہو ہے وہ زمیں کی بد دعا ہے

ترے تیشۂ جنوں سے ہیں لہو لہو چٹانیں
ارے کچھ تو سوچنا تھا تہ سنگ آئنہ ہے

تجھے بھولنے میں شاید مری عمر بیت جائے
تجھے بھولنے سے پہلے مجھے خود کو بھولنا ہے

نہ کہیں کتاب میں ہوں نہ کسی کے دل میں قیصرؔ
میں خیال رائیگاں ہوں مجھے کون سوچتا ہے

قیصرالجعفری

سائٹ ایڈمن

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button