مجھے کوئی کیوں سمیٹے مری روشنی میں کیا ہے
وہ چراغ رہ گزر ہوں جو پس سحر جلا ہے
کوئی ایسا حادثہ ہو کہ مجھی کو دفن کر دے
جو ترس ترس کے برسے وہ غبار درد کیا ہے
ترے ذہن کا دھواں بھی نہ چھپا سکا وہ منظر
جسے کاٹ کر گرایا وہ شجر وہیں کھڑا ہے
مجھے کیا دکھا رہے ہو مرا داغ نارسائی
مری جستجو سے پوچھو کوئی راستہ بچا ہے
مجھے ڈر ہے آسماں بھی کہیں زد میں آ نہ جائے
تہ خاک جو لہو ہے وہ زمیں کی بد دعا ہے
ترے تیشۂ جنوں سے ہیں لہو لہو چٹانیں
ارے کچھ تو سوچنا تھا تہ سنگ آئنہ ہے
تجھے بھولنے میں شاید مری عمر بیت جائے
تجھے بھولنے سے پہلے مجھے خود کو بھولنا ہے
نہ کہیں کتاب میں ہوں نہ کسی کے دل میں قیصرؔ
میں خیال رائیگاں ہوں مجھے کون سوچتا ہے
قیصرالجعفری