بینا گوئندی
بینا گوئندی 3 جولائ 1967 کو پنجاب کے شہر سرگودھا کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئیں۔
ان کا اصل نام روبینہ نازلی گوئندی ہے مگر بر صغیر کے مشہور افسانہ نگار اور ادیب اشفاق احمد نے ان کا قلمی نام بینا گوئندی تجویز کیا ۔ابتدائ تعلیم سرگودھا کے کانوُنٹ ہائ سکول سے حاصل کی ۔بچپن سے ہی لکھنے کی طرف من مائل رہا۔ پہلے پہل انگریزی میں لکھتی رہیں۔
انہوں نے اوکاڑہ کے وومن کالج میں پروفیسری بھی کی اور پھر اعلی تعلیم کے لیۓ امریکہ روانہ ہو گیں۔وہاں پر اردو کی بستی “گھروندہ” کے نام سے آباد کی۔بینا گوئندی حق اور سچ کی بات کرتی پیں۔ ان کی شاعری کے موضوعات زمانے کے بدلتے رویوں کے اثرات کے ساتھ بدلے مگر وہ اپنی تہذیبی روایات اور اقدار کو لے کر آگے بڑھی ہیں۔ ان کی شاعری میں تصوف اور دلیری کی جھلک نمایاں ہے ۔ان کی پہلی شاعری کی کتاب “سوچتی آنکھیں “1992 میں منظر عام پر آئ ۔ دوسری شاعری کی کتاب “جو تم نے دیکھا “2001 میں چھپی اور تیسری شاعری کی کتاب “ مٹی کی پیالی “2018 میں چھپی ہے۔
اس کے علاوہ سفر نامہ نگاری میں چار کتب ہیں ۔ ایک افسانوں کی کتاب اور ایک ناول پر کام کر رہی ہیں۔
-
کٹی پتنگ ہوں میں اور بے سہارا ہوں
بینا گوئندی کی ایک اردو غزل
-
بند ہتھیلی میں ہیں سب
بینا گوئندی کی ایک اردو غزل
-
چاندنی رات میں بلاؤں تجھے
بینا گوئندی کی ایک اردو غزل
-
آکاش پہ بادل چھائے تھے
بینا گوئندی کی ایک اردو غزل
-
جو مہکا رہے تیری یاد سہانی میں
بینا گوئندی کی ایک اردو غزل