جو مہکا رہے تیری یاد سہانی میں
ایسی خوشبو کہاں ہے رات کی رانی میں
ابھرا تھا آنکھوں میں ایک سنہرا خواب
جاتے جاتے دے گیا زخم نشانی میں
رات گئے تک یوں ہی تنہا ساحل پر
گھومتے رہنا پاؤں پاؤں پانی میں
اترا جو اس دل میں قافلہ الفت کا
کیسی کیسی غزلیں ہوئیں روانی میں
کیوں بے رنگ کیا ہے میری اوڑھنی کو
تیرے غم کی دھوپ نے بھری جوانی میں
کب سے اپنا بچپن ڈھونڈھتی پھرتی ہے
بیناؔ تیری بکھری ہوئی کہانی میں
بینا گوئندی