بھرے ہیں دم جو فقیرانِ خوش نوا اس کا
سدا ہو خیر، ہمیشہ ہو بس بھلا اس کا
کسی بھی طور اسے کوئی غم نہ چھو پاۓ
مری دعا ہے اسے خوش رکھے خدا اس کا
مرے عدو کو دوبارہ سکھاۓ فن کوئی
کہ مجھ پہ کام نہیں تِیر کر رہا اس کا
دیارِ چشم میں جاری ہے سَیل اشکوں کا
اسے بتاؤ تصوّر نہیں بچا اس کا
جو کہہ رہا تھا کہ یاں انقلاب آۓ گا
پتہ لگائیے آخر کو کیا بنا اس کا؟
کسی نے اس سے محبت کی بھیک مانگی تھی
اور اس کے بعد ہوا حشر کیا سے کیا اس کا
مصیبتوں میں گِھرے شخص سے کہے کوئی
کہ اس کو ڈھونڈتا ہے اب بھی ناخدا اس کا
سزا بھگت کے بھی اس کی اکڑ سلامت ہے
کہ رسّی جل تو گئ، بَل نہیں گیا اس کا
تو دیکھیے گا مری آنکھ میں چمک ہوگی
کسی نے نام یہاں پر جو لے لیا اس کا
سوال یہ ہے اسے کس کی آس تھی آخر
جواب یہ ہے کوئی بھی کہیں نہ تھا اس کا
شہزین فراز