زندگی زرد زرد چہروں میں
بھیک ڈالی گئی ہے کاسوں میں
ہم سے کیا پوچھتے ہو رنگِ جہاں؟
ہم تو زِندوں میں ہیں نہ مردوں میں
دلِ معصوم ٹوٹ ٹوٹ گیا
ہم سجے رہ گئے دوکانوں میں
سوئے ہوتے ہیں اپنے گھر میں ہم
پائے جاتے ہیں اُن کی گلیوں میں
اب کتابوں میں بھی نہیں ملتا
پیار ہوتا تھا پہلے لوگوں میں
یا الٰہی! بس اُس کی ایک جھلک
جس کی خوشبو ہے میری سانسوں میں
چھان دیکھی ہے مشرقین کی خاک
آن بیٹھا ہوں تیرے قدموں میں
نازشؔ ایسا قلندرانہ مزاج
کوئی ہو گا، تو ہو گا صدیوں میں
شبیرنازش