آپ کا سلاماردو کالمزعلی عبد اللہ ہاشمی

اردوان اور سامراجی قوت

ایک کالم از علی عبد اللہ ہاشمی

اکتوبر 9, 2019 تُرکی نے شام پر حملہ کر دیا۔ یہ حملہ دراصل ترکی اور شام کے سرحدی علاقوں پر ایک سیف زون تشکیل دینے کیلئے کیا گیا تو سوال یہ پیدا ہوتا ھے کہ آیا "سیف زون” ھے کیا اور ترکی کو یکایک اسکی کیا ضرورت پیش آ گئی۔ 2011 میں شام میں خانہ جنگی شروع ہوئی اور ملک بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ شامی حکومت نے باغیوں کو کُچلنا شروع کر دیا لیکن ان کوششوں میں شمالی علاقوں میں اسکی گرفت نہ ہونے کے برابر رہ گئی اور شامی حکومت سمٹ کر محض دمشق، بنی یاس، حمص اور دارا تک محدود ہو گئی۔ اس ویکیوم کو 2013 میں نئی جہادی تنظیم داعش نے بھرنا شروع کیا اور ان علاقوں میں جہاں کی زیادہ تر آبادی کُرد تھی داعش کے تسلط میں چلے گئے۔

کُردوں نے بھرپور مزاحمت کی جس میں امریکہ نے فضائی حملوں اور تربیت سے انکی مدد کی۔ 2015 میں کُرد اور غیر کُرد گروپوں نے اتحاد کر لیا اور مل کر "سیریئن ڈیموکریٹک فورسز یا ایس-ڈی-ایف” کے نام سے داعش کیخلاف اتحاد بنا کر لڑائی شروع کر دی یہاں تک کہ شمالی شام میں 2019 تک ایک آزاد کُرد حکومت کھڑی ہوگئی۔ انہوں نے گیارہ ہزار کے قریب داعش کے جنگجووں کو گرفتار کیا اور انکےخاندانوں کو محفوظ رکھنے کیلئے کیمپ بنائے گئے۔ امریکی افواج نے بھی اپنا رسوخ بڑھایا اور ترکی شام کے بارڈر پر امریکی فوجوں نے پیٹرولنگ شروع کر دی۔ دوسری طرف ترکی جو بہت دیر سے کُردوں کی طاقت پکڑنے سے کسمسا رہا تھا کیونکہ شامی خانہ میں کُرد تُرکش علیحدگی پسند گروہ پی کے کے بھی ایس ڈی ایف کا حمائیتی تھا۔ اب بارڈر پر آزاد کُرد ریاست کے قیام سے پی کے کے کی اندرون ترکی کاروائیوں کا دائرکار بڑھنے کا قوی امکان تھا جو کئی دہائیوں سے ترکی میں ایک آزاد کُرد ریاست کیلئے کام کر رہی تھی اور جنکی وجہ سے دسیوں ہزاروں لوگ پہلے ہی لقمہ اجل بن چکے تھے۔ اب شامی سرحد پر انکے ذور پکڑنے سے طاقت کا توازن بگڑنے کے امکانات انتہائی زیادہ تھے۔

اردوان کیمطابق ایس ڈی ایف اور پی کے کے ایک ہی سکے کے دو رُخ تھے لہذا اس بات کا قوی امکان تھا کہ شام میں فتح کے بعد یہ لوگ ترکی کیلئے خطرہ بنیں گے۔ اس نے پہلے بھی 2016 میں ترکی بارڈر پر داعش کے بڑھتے اثر رسوخ کو ختم کرنے کیلئے داعش کے زیر کنٹرول علاقوں پر حملہ کیا تھا اور بعد ازاں 2018 میں ایس ڈی ایف کو ختم کرنے کیلئے حملہ آور ہوا۔

کیونکہ ترکی کی معیشت اُن دنوں امریکہ کیساتھ تجارتی ذورآزمائی میں کافی کمزور ہو چکی تھی اور بیروزگاری سمیت معیشت کریش کی جانب تیزی سے گامزن تھی لہذا حکومتی نالائقی کو چھپانے کیلئے شامی مہاجرین (تعداد 3.6 ملین) کو گرتی ہوئی معیشت کی اصل وجہ کے طور پر حکومتی سطح سے پروجیکٹ کرنا شروع کیا گیا۔

شامی خانہ جنگی میں تقریباً 6 کروڑ لوگوں نے دوسرے ممالک میں ہجرت کی تھی جنکی سب سے بڑی تعداد یعنی 3 کروڑ 60 لاکھ تُرکی میں آباد تھی لہذا اردوان حکومت نے معیشت کی تباہی کا سارا ملبہ انہی پر ڈال دیا۔ بلدیاتی انتخابات 2014 میں اردوان نے 81 میں سے پچاس میئر شپس اپنی جماعت کے نام کی تھیں جو 2019 کے انتخابات میں محض39 رہ گئیں۔ جلتی پر تیل ایسے پڑا کہ ایک پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی(کُرد) نے 8 سیٹیں جیت کر اپوزیشن کو سپورٹ کر دیا جس سے بلدیاتی اداروں سے اردوان کی پارٹی کی اکثریت جاتی رہی۔۔ لہذا ملک میں گرتی ہوئی ساکھ بچانے کیلئے اردوان نے "سیف زون” والا آئیڈیا مکمل تندہی سے لانچ کر دیا۔

اسکے پاس پہلے ہی شمال مغربی شام میں مفتوحہ علاقے موجود تھے لہذا اب وہ مشرقی جانب بڑھنے کیلئے پر تولنے لگا۔ سیف زون پراجیک کیلئے دلیل یہ رکھی گئی کہ ترکی کی معیشت پر بوجھ بنے شامیوں کو ان علاقوں میں آباد کیا جائے گا۔ اس نے روس اور امریکہ سے آشیرباد لینے کی کوشش کی لیکن پہلی دفعہ میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ جب اندرونی پریشر بڑھنے لگا تو اردوان نے عالمی طاقتوں کو متنبہ کیا کہ اگر انہوں نے سیف زون کی تشکیل میں انکی مدد نہ کی تو ترکی کی افواج اکیلے ہی اس کام کو سرانجام دے لیں گی لیکن یہ محض دھمکی تھی کیونکہ امریکی افواج شامی ترک بارڈر پر موجود تھیں۔ اگست 2019 میں کچھ پیشرفت ہوئی اور امریکہ نے 5 کلومیٹر تک بارڈر کے اندر تک ترک امریکی افواج کی مشترکہ پیٹرولنگ کی تجویز کو قبول کر لیا جس پر ایس ڈی ایف نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔

اردوان یہاں نہیں رُکا اور اس نے اقوامِ متحدہ سمیت عالمی قوتوں کو ایک مہینے کے اندر نیا پلان دیدیا جس میں اس نے شامی بارڈر کے اندر 30 کلومیٹر گہری اور 480 کلومیٹر لمبی سیف زون بنانے کی اجازت مانگ لی تا کہ وہاں کم از کم دو کروڑ مہاجرین کی واپس آبادکاری کی جا سکے۔ اس نے ٹرمپ کو فون کیا اور قائل کر لیا کہ امریکی افواج کے انخلاء کا وقت آ گیا ھے۔ ٹرمپ نے فوراً انخلاء کا حکم جاری کیا اور اسطرح ترکی نے شام پر حملہ کر دیا۔

کُرد اتحاد ایس ڈی ایف امریکی آشیرباد اٹھنے پر کمزور ہوا تو اس نے داعش کے لڑاکا جنگجووں کو آزاد کرنا شروع کر دیا اور تاثر یہ دیا کہ جیسے وہ جیلیں توڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ بظاہر ترکی کی کردوں سے جنگ نے نئے وار زون کی تشکیل دے لی ھے۔ اب ترکی جو جو معاہدہ لاوسین کے خاتمے پر 2023 میں دوبارہ چالیس اسلامی ممالک کی باگ دوڑ سنبھالنے کا عندیہ دے چکا ھے یا تو اس معرکے میں سرخ رو ہو کر خطے میں اپنے حقِ حکمرانی کی داغ بیل ڈالے گا یا پھر یہ چالیس ممالک جن میں سعودیہ اور یو اے ای سرِ فہرست ہیں، اسے کُردوں کیساتھ الجھا کر اسکا کباڑہ کر دیں گے، یہ دیکھنا ابھی باقی ھے۔
جہاں تک بات ھے کہ یہ حملہ آیا درست ھے یا غلط تو جنگیں انسانیت کی تذلیل کا سب سے مہلک ہتھیار ہیں۔ اردوان اور سامراجی قوتوں کا ایک پیج پر ہونا اس بات کا منہ بولتا ثبوت ھے کہ بھلے اردوان ایک بڑا لیڈر ھے مگر اب کی بار اسکے ہاتھ خون سے رنگے ہیں۔۔

علی عبد اللہ ہاشمی

علی عبد اللہ ہاشمی ایک وکیل اور اردو لکھاری ہیں- تعلق سیالکوٹ سے ہے-

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button