یوں بھی کچھ وقت گزارا کسی رسوائی میں گم
اچھی کٹ جائے گی پھر یاد کی شہنائی میں گم
تیرے ہنسنے سے ابھر آیا ہوں ویسےکہیں تھا
پورے منظر سے الگ بات کی گہرائی میں گم
ہم ہیں اس عہد_جواں۔ مرگ میں بوڑھے کاذب
ہم نے رہنا ہے نئی۔ بات کی پسپائی میں گم
ایک انبوہ_عجب رنگ ہے مجھ میں۔ محصور
ہر بصارت سے الگ۔ تیری پذیرائی میں گم
یہ اندھیرا ہے کسی ماہ_ درخشاں کا بھرم
میں ہوں بیدار مگر رات کی دانائی میں گم
مجھے مل جائے تو ماتھے پہ کروں پیار۔ اسے
ہائے وہ شخص ہوا ہے میرے ہرجائی میں گم
یہ وبا اتنی بھی مہلک نہ بنا ڈر ہے۔ مجھے
کوئی باقی نہ۔ بچے منظر و۔ بینائی میں گم
ذوالقرنین حسنی