- Advertisement -

تحفظ ناموس رسالتؐ اور رعب مسلم

اویس خالد کا ایک اردو کالم

تحفظ ناموس رسالتؐ اور رعب مسلم

بوساطت استاذالحفاظ حضرت علامہ قاری محمد شہباز عطاری قادری صاحب،عالم با عمل،صوفی منش،درویش صفت حضرت قبلہ علامہ محمد عابد عائد الحجازی صاحب آف شیخوپورہ کے پر مغز درس و بیان سے ماخوذ تحریر آپ کی آگہی کے سپرد ہے۔نبی کریمؐ کی گستاخی کرنا کافروں کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔گستاخی تواس وقت سے ہی کافروں نے شروع کر دی تھی جب انی رسول اللہ علیکم کے جواب میں کافروں نے انکار کر دیا تھا۔13 سال مکہ میں کافروں نے گستاخیاں کیں۔یہ کافروں کا دائمی وطیرہ ہے۔آج کل سوشل میڈیا کی وجہ سے ذیادہ پتہ چل جاتا ہے ورنہ کفار ہر دور میں گستاخی کے مرتکب رہے ہیں۔کافر تو ہے ہی منکر وہ تو گستاخی کرے گا۔

آقا کریمؐ کا نام مبارک ہی محمدؐ ہے جس کا مطلب ہی یہ ہے کہ سب سے ذیادہ تعریف کیا جانے والا۔ کفار نبی پاکؐ کا نام بھی نہیں لیتے تھے کہ تعریف ہو جائے گی تو وہ مذمم کہا کرتے تھے۔آقاؐ کو پتہ چلا تو فرمایا کہ یہ کسی مذمم کی مذمت کرتے ہیں میں تو محمدؐ ہوں۔پتہ چلا کہ عظمت مصطفیؐ کو تو کوئی نقصان نہیں،جن پر تسلسل سے صبح شام ستّر ستّرہزار فرشتے درود بھیجیں تو یہ منکر کیا شان گھٹا سکیں گے۔اصل میں تو یہ ہماری آزمائش ہے۔ابلیس کا مشن ہے کہ کس کام سے مسلمانوں کو سب سے ذیادہ اذیت دی جا سکتی ہے تو اسے اس بات کا علم ہے کہ خاتم النبیینؐ کی ذات اقدس کی بلند بارگاہ میں گستاخی کروا کر میں مسلمانوں کو سب سے ذیادہ دکھ پہنچا سکتا ہوں تو وہ کافروں کو اس بات پر اکساتا رہتا ہے۔یہی اس کا مشن ہے۔اقبالؒ نے اسی مجلس شوریٰ کا سراغ لگا کر مسلمانوں کو بتا بھی دیا ہے۔فرانس لاکھوں میل دور بیٹھا گستاخیاں کر رہا ہے اور شرافت سے وہ باز آ جائے گا یہ ہمارا بھول پن اور سادگی ہے۔

ایک بات سمجھنے والی ہے کہ گستاخ طبقہ ہمیشہ مسلمانوں سے ہی ڈرتا آیا ہے۔مسلمانوں کے ڈر سے ہی وہ مجبوراً کلمہ پڑھتے تھے انھیں اللہ اور رسولؐ کا ڈر نہیں تھا،آقاؐ کے غلاموں کا ڈر تھا۔تفسیر جلالین میں ہے کہ عبد اللہ ابن ابیعی نے نبی پاکؐ کی سواری کے بارے میں کہا تھا کہ مجھے اس کے منہ سے بدبو آتی ہے اس کا منہ پیچھے کرو۔عبد اللہ ابن رباحؓ نے فرمایا کہ نبی پاکؐ کی سواری کا پیشاب بھی تیری خوشبو سے افضل ہے۔وہ اپنا سا منہ لے کر وہاں سے دفعہ ہو گیا۔سورۃ توبہ کی آیت نمبر 61 اور62 میں جو ارشاد پاک ہے اس کو سمجھنے سے یہ توہین والا سارا معاملہ روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گا۔ارشاد ہے جس کا مفہوم ہے”منافقین نبیؐ کو ایذا پہنچاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپؐ تو نرے کان(ہماری سازشوں کا سب پتہ چل جاتا ہے)ہیں۔آپؐ کہیے کہ وہ تمہاری بھلائی کے لیے ہی کان ہیں۔وہ مومنین کی باتوں کی تصدیق کرتے ہیں اور تم میں سے ایمان والوں کے لیے رحمت ہیں۔اور جو لوگ ایذا پہنچاتے ہیں ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔اے مسلمانو! یہ کافر تمہیں راضی کرنے کے لیے قسمیں کھاتے ہیں حالانکہ اللہ اور رسولؐ اس کے ذیادہ حقدار ہیں کہ ان کو راضی کیا جائے اگر وہ مومن ہیں۔”ا س آیت مبارک سے پتہ چلا کہ کافر اگر گستاخی سے باز رہتے ہیں تو ایک ہی صورت ہے کہ وہ مسلمانوں کے خوف میں مبتلا ہوتے ہیں اور جب مسلمانوں کا خوف دل میں نہیں رہتا تو کھل کر گستاخیاں کرنے لگتے ہیں۔حالانکہ انھیں اللہ اوررسولؐ کو راضی کرنا چاہیے لیکن چونکہ ایمان تو سرے سے ان کے اندر ہے نہیں تو یہ صرف مسلمانوں سے اپنا دفاع کرنے کی خاطر ہی منع ہوتے ہیں ورنہ ساری حدیں پار کر جاتے ہیں۔اب مسلمان اگر ان کو نہ ڈرائے اورالٹا ان سے اور گرین،گرے اور بلیک لسٹ سے ڈرے تو ان کو گستاخیوں سے کیسے روک سکتے ہیں۔ایک اور لطیف نکتہ ہے کہ اس آیت میں اللہ اور رسولؐ کے ذکر مبارک کے ساتھ ضمیر واحد ہی استعمال ہوئی حالانکہ عربی میں تثنیہ موجود ہے، جس سے معلوم ہوا کہ باعتبار ذات تو اللہ اور رسولؐ دو ہستیاں ہیں لیکن رضا کے اعتبار سے ایک ہی ہیں۔اللہ پاک تو نظر نہیں آتے اب اگر ان دونوں کو راضی کرنا ہو تو انھیں ہی دیکھیں گے ناں جو ہستی سامنے ہیں یعنی اللہ کی رضا کا بھی پتہ مصطفی کریمؐ کی رضا سے چلتا ہے۔نبی پاکؐ شاہد بھی ہیں اور شہید بھی۔مجمع الزوائر میں اور الخصائص الکبری میں امام جلال الدین سیوطیؒ حدیث بیان فرماتے ہیں مفہوم ہے کہ آقاؐ نے فرمایا کہ میں دنیا کو اور قیامت تک کی چیزوں کو ایسے دیکھتا ہوں جیسے اپنی ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں۔الترغیب الترہیب میں ایک طویل حدیث ہے اس کا مختصر متن و مفہوم ہے کہ ایک شخص نے آ کر کہا کہ میں آپؐ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔آپؐ نے فرمایا پوچھو گے یا میں بتاؤں کہ پوچھنا کیا ہے؟ترمذی شریف3233: میں ہے کہ نبیؐ نے فرمایا کہ اللہ پاک نے اپنا دست قدرت میرے کندھوں کے درمیان رکھا تو ہر شے ؎ظاہر ہو گئی اور میں نے پہچان بھی لی۔بخاری و مشکوۃ میں ہے کہ فرمایا سارے امتی جنت میں جائیں گے جو انکار کرے گا وہ نہیں جائے گا۔پوچھا انکار کون کرے گا فرمایا جو میرانافرمان ہو گیا وہ منکر ہو گیا۔امام نوویؒ نے اس حدیث کو صحیح کہا کہ فرمایا کہ مومن نہیں جب تک وہ اپنی خواہشات کو میرے تابع نہ کر دے۔خلاصہ گفتگو یہ ہے کہ جب ہماری مرضیاں اللہ اوررسولؐ کے تابع ہو گئیں تو ہمارا رعب اوردھاک ان کافروں کے دلوں پر ہو گی لیکن اگر ہم اپنی مرضیاں ہی کرتے رہ گئے تو ان کافروں کو گستاخیوں کا موقع ملتا رہے گا کیوں کہ یہ اللہ اور رسولؐ سے نہ ڈرتے ہیں نہ محبت کرتے ہیں انھیں دنیا میں اگر ڈر ہے تو مسلمانوں سے ہے۔یہ توہین رسالتؐ اصل میں ہماری آزمائش ہے۔ہم خاموش رہے تو اللہ اور اللہ کے رسولؐ کو کیا جواب دیں گے۔

اویس خالد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
شیخ خالد زاہد کا اردو کالم