- Advertisement -

وہ

ایک افسانہ از معافیہ شیخ

اسکے قدم پھر لاہور کی ہیرا منڈی کی جانب اٹھ رہے تھے وہ مجبور تھا ‘ وہ اپنے قدم روک رہا تھا مگر اسکا جسم اسے کھینچ کر وہاں لے جا رہا تھا ” کہ چل تیری ضرورت صرف وہاں پوری ہو گی ” وہ پچیس سال کا خوبصورت جوان تھا اسکی جوانی اپنے عروج پر تھی.
اسنے بنا کچھ سوچے سمجھے قدم بڑھا دیۓ اور اسکے قدم وہیں ” ہیرا بائی ” کے دروازے کے باہر رک گئے. دستک دینے سے پہلے اس نے سوچا کہ پلٹ جاۓ مگر ہیرا بائی جیسے اسکے قدموں کی چاپ بھانپ گئی ہو اس نے دروازہ کھول دیا.
” آؤ ‘ عبید بابو آؤ .. بڑی دیر لگا دی اس دفعہ آنے میں” ہیرا بائی دروازہ کھلا چھوڑ کر اندر آ گئی.
وہ اندر داخل ہو گیا ” نجانے کیا ہو تھا کہ اس کا دل بوجھل سا تھا ‘ ہیرا بائی کا کوٹھا وہ واحد جگہ تھی جہاں پہنچ کر اسے سکون ملتا تھا.
عبید بڑی محبت سے اس سے مخاطب ہوا ” ہیر تیرے آنگن میں قدم رکھتے ہی مجھے سکون ملتا تھا میرا سکون کہاں چلا گیا ؟ ”
عبید بابو سکون میرے آنگن میں نہیں میری آغوش میں ملتا ہے تمہیں” یہ کہہ کر وہ اس کے بے حد قریب آ گئی.
وہ اب بھی الجھا ہوا تھا ‘ وہ اس سے کچھ پوچھنا چاہتا تھا ایسی باتیں جسکا جواب صرف ہیر کے پاس ہو. ہیرا بائی جو اسکے لیۓ ” ہیر ” تھی جس کے پاس وہ برسوں سے آ رہا تھا مگر اپنے نکاح کے بعد اس نے سوچ لیا تھا کہ اس کے قدم دوبارہ اس کوٹھے کہ دہلیز پار نہیں کریں گے.
ابھی رخصتی میں کچھ وقت باقی تھا مگر شرعی طور پر اسے ایک حلال رشتہ بیوی کی شکل میں مل چکا تھا.
وہ بھی ہیرا بائی تھی بھات بھات کے لوگوں کو جاننے والی انکی سوچ کو اندر تک پڑھ لینے والی وہ بھلا کیسے نہ عبید کی سوچ پڑھ پاتی. وہ تو یہ تک جان لیتی تھی کہ کونسا شکاری لفظوں میں الجھ کر سب کچھ لٹا جاۓ گا اور کونسا گاہک ایسا ہے جس پر اپنا سب کچھ لٹانا پڑے گا.
” عبید بابو جب یہاں قدم دھر چکے ہو تو پچھتاتے کیوں ہو ؟ آؤ بیٹھو ہمارے پاس ہم تمہاری دل و روح کو سکون دیں.” وہ اس کے سر میں انگلیاں چلانے لگی.
” ہاں ہیر میں تم میں اپنا سکون ہی لینے آیا ہوں میرے وجود کو اب تمہاری عادت ہو گئی ہے ‘ میرے لمس میں جب تک تمہاری خشبو نہ رچ بس جاۓ مجھے سکون نپیں ملتا.”
وہ صحیح کہہ رہا تھا اس جوانی میں یہی تو اس کی طلب تھی.
اور نکاح کے بعد اس نے سوچا تھا اس کی وہ طلب اس کی منکوحہ پوری کرے گی ‘ جس کے وجود کی خوشبو اس کو معطر کر دے گی ‘ جس کی باتیں اس کے کانوں میں رس گھولیں گی مگر سب کچھ اس کی توقعات کے برعکس ہوا تھا. اسے اپنی منکوحہ کو ہاتھ لگانے کی اجازت تو دور’ اس سے بات کرنے کی بھی اجازت نہ تھی گو شرعی حق سے وہ اسکی بیوی تھی مگر دنیا کیا سوچے گی کہ ان سے ذرا صبر نہیں ہو رہا یہ کہہ کر میل ملاپ ٹال دیا جاتا.وہ لوگ عجیب فرسودہ خیالات کے مالک ہیں اس نے دل میں سوچا تھا مگر پھر خودی کچھ سوچ کر اپنے خیال کو رد کر دیا.
ہیرا بائی اس کی سوچوں کو نظر انداز کرتی اس کے قریب تر آتی جا رہی تھی ‘ عید سر پر تھی اسے بھی نیا جوڑا بنانا تھا ہر انسان کی طرح اسکی بھی کچھ خواہشات تھیں اسے انہیں پورا کرنا تھا.
عبید نے بھی کچھ مزاحمت نہیں کی.
” عبید بابو عید کے لیۓ مجھے کیا لے کر دو گے ؟
” جو دل چاہے ہیر لے لینا مگر اس وقت مجھے اپنا آپ سونپ دو ”
وہ جوانی کی جس دہلیز پر تھا وہاں اس کا وجود اپنی جنسی ضروریات کو تسکین پہنچانے کے لیۓ اسکا طلبگار تھا. ” ہر شخص جوانی کی دہلیز ایسے پار نہیں کر پاتا کہ وہ خار دار جھاڑیوں سے اپنا دامن بچا کر نکلے” تبھی تو نکاح انسان کی بنیادی ضروریات میں سے اک رکھا گیا ہے.
وہاں ہیرا بائی اور عبید کے علاوہ کوئی تیسرا نفس موجود نہیں تھا.
ہیرا بائی اسکے اتنے قریب آ چکی تھی کہ عبید اس کے ناک کے نتھوں سے نکنلے والی گرم ہوا کو بھی محسوس کر سکتا تھا.
مگر اسے لگا یہاں کہیں وہ بھی موجود ہے ‘ بہت خوش ہو رہا ہے ‘ تالیاں بجا رہا ہے اور کہہ رہا ہے “دیکھا میرا کمال ! میں نے تیرے حلال رشتے کو تجھ سے دور کر دیا. تیری منکوحہ تیرے وجود سے گھبراتی ہے ‘ تجھے اس کے قریب نہیں جانے دیا جاتا. مگر دیکھ! یہ ہیرا بائی مکمل تیری ہے بنا کسی رشتے کے ‘ اس کے جسم کے ہر حصے پر تیرا اختیار ‘ اسکی لمس لمس کو تو محسوس کر سکتا ہے.”
اس نے جھٹک کر ہیرا بائی کو خود سے دور کر دیا.
” وہ دور جا پڑی — وہ حیران ہوئی ‘ ایسا پہلی دفعہ ہوا تھا عجیب ناگواری سی اسکے چہرے پر آ دوڑی.
وہ وہاں موجود یہ سب دیکھ رہا تھا ‘ اور فقط افسردگی سے ہاتھ ملتا رہ گیا کہ اس نے اک دفعہ پھر بشر کے نفس سے مات کھائی تھی.
” عبید نے اپنا حلیا درست کیا ‘ حواس بحال کرنے کی کوشش کی .. اور کچھ نوٹ اس کے بیڈ پر پھینک کر رخصت ہو گیا

معافیہ شیخ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
اردو افسانہ از سعادت حسن منٹو