- Advertisement -

وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ

ایک اردو کالم از سعد ضیغم

وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ

اچھا بھئی ایک بات سمجھ نہیں آتی اور وہ یہ کہ اگر ایک شخص سفید لباس میں ملبوس سڑک پر چلا جا رہا ہو اور اس کے قریب سے گزرتی ہوئی تیز رفتار گاڑی اس پر کیچڑ اچھال جائے تو اِس سارے وقوعے میں اُس بھلے آدمی کے سفید لباس کا قصور ہوا؟ سڑک پر پڑے کیچڑ کا یا پھر اس گاڑی چلانے والے شخص کا؟
ہم سنتے تھے کہ مرد حضرات سوشل میڈیا وغیرہ پر خواتین سے انباکس میں ہونے والی گفتگو، بھیجی جانیوالی تصاویر اور شئیر کی گئی پرسنل انفارمیشن کا نا جائز فائدہ اٹھاتے پائے جاتے ہیں جس سے کئی زندگیاں اجیرن ہوتی ہیں، کئی گھر اجڑتے ہیں۔ اِس کا رد عمل یہ ہوا کہ مردوں کو خوب برا بھلا کہا گیا، سیفٹی ایکٹ متعارف کروائے گئے اور سخت سزائیں دی گئیں۔
اب ذرا تصویر کا دوسرا رخ دیکھئیے! ایک عورت جو اپنی مرضی سے مرد کے ساتھ گھومتی پھرتی اور خوش گپئیاں کرتی ہیں یکدم وہی عورت اس پر ہراسمنٹ کا دعوی کر دیتی ہے اور سارا معاشرہ بنا سوچے سمجھے اُس مرد کو توئے توئے کرنے لگ جاتا ہے۔
ایک فحش اداکارہ جو اپنے جسم کی نمائش کرنا عین فرض سمجھتی ہے اور اپنی بولڈنس کا چرچا سرِ عام کرتی پھرتی ہے، جب وہ ایک جید عالم کے گھر جا کر اس کی ٹوپی اتار کر سیلفیاں بناتی ہے اور باہر آ کر کہتی ہے کہ یہ صاحب مجھے دعوتیں دیتے تھے اور بار بار فون کرتے تھے تو ہم سب اُس مرد کو بُرا بھلا کہنے میں لگ جاتے ہیں۔
ایک اور اداکارہ جس کا آج کل ہر طرف ڈنکا بج رہا ہے، کون نہیں جانتا کہ اسکی اخلاقی سطح کیا ہے مگر جب وہ وزیرِ اطلاعات کے دفتر میں پہنچ کر تصویریں بناتی ہیں تو کھپ پڑ جاتی ہے۔ جب وہ وزیرِ اعظم ہاؤس میں جا کر تصویریں بناتی ہے تو یہ تاثر لیا جاتا ہے کہ جیسے اس عورت کو وزیراعظم خود اپنی گاڑی میں بٹھا کر وہاں لے گئے ہوں۔
صاحبو ! ہم عام سنتے آئے ہیں کہ بازاری خواتین جو بڑے بڑے عہدیداروں کا بستر گرم کرنے کے عوض نا صرف ان سے بھاری رقمیں بٹورتی ہیں بلکہ ان کا بلیک میلنگ سٹف اپنے پاس محفوظ رکھ کر ساری زندگی ان کے گلے کی ہڈی بنی رہتی ہیں۔ ہمارے ایک پولیس افسر دوست ایک دن فرماتے ہیں، یار! حوا کی بیٹی سے جب کوئی مرد زیادتی کرتا ہے تو سارا معاشرہ کھپ ڈالٹا پے لیکن جب یہی حوا کی بیٹی کسی معصوم آدمی کی تنخواہ ایک منٹ میں اسکے بٹوے سے نکلوا لیتی ہے تب نہ عرش ہلتا ہے نہ ہی لوگ اس پر اپنے منہ سے ایک لفظ نکالتے ہیں۔
بالخصوص آپ اگر کوئی پرسنیلٹی ہیں یا کسی منصب پر فائز ہیں تو آج کل کے رواج کے مطابق ہر خاص و عام آپکے ساتھ سیلفی بنانے کا تقاضا کرتا ہے۔ منع کرنے پر آپ بد اخلاق اور روڈ کہلاتے ہیں اور تصویر یا ویڈیو بنوا لینے پر اور طرح کی مصیبتوں کا شکار ہونے کا خطرہ آپکے ساتھ جڑا رہتا ہے۔
مثال کے طور پر پچھلے دنوں کالج کے ایک فنکشن میں ایک لڑکا جو زنانہ لباس پہنے، بالوں پر وگ لگائے اور چہرے پر نقاب چڑھائے برائیڈل روم میں اپنی پرفارمنس کے لیے ریڈی بیٹھا تھا، میرے وہاں پہنچنے پر اس نے تصویر بنانے کی خواہش کی جو میں نے یہ کہتے ہوئے پوری کر دی کہ بھائی میاں مجھ پر تو کوئی یقین بھی نہ کرے گا کہ لڑکی جعلی تھی اور بعد میں ہوا بھی یہی یعنی میں سینکڑوں جگہ پر صفائیاں پیش کرتا پھرا۔
بھائی میاں ہم نے آج تک اس نام نہاد میل ڈومیننٹ سوسائٹی میں کسی عورت کو مرد کی عزت اچھالنے پر لوگوں سے تنقید کا سامنا کرتے نہیں دیکھا لیکن اس سے الٹ ہم نے گھٹیا کردار کی فحش عورتوں کے ہاتھوں مردوں کی پگڑیاں اچھلتے ضرور دیکھی ہیں۔ سونے پر سہاگا یہ کہ ہمارے مردوں میں سے ایک تہائی اہسے ہیں جو فیمنسٹ عورتوں کی حمایت میں صرف اس لیے پیش پیش دکھائی دیتے ہیں کہ ایسا کرنے سے سامنے والی عورت کا فون نمبر مل جائے گا یا کہیں بیٹھ کر چائے پینے میں آسانی ہو جائے گی۔ لچھ نہ بن پایا تو ان ماڈرن عورتوں کی زبانی یہ تو سننے کو ملے گا نا کہ آپ عام مردوں سے بالکل الگ ہیں۔
ہماری قوم قوانین کو تروڑ مروڑ کر استعمال کرنے میں جتنی ماہر ہے اگر اس سے آدھی ان قوانین پر عمل کرنے کی عادی ہو جائے تو شاید ہمارے دن پھر جاویں۔
پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں اچھے برے لوگ پائے جاتے ہیں۔ اچھے مرد و زن اور برے خواتین و حضرات کس خطہ زمین پر نہیں ہوں گے لیکن جس سوسائٹی میں بد کردارے لوگوں کے کہے پر اچھے لوگوں کے بارے میں رائے قائم کی جاتی ہو وہاں اچھے برے کی تمیز کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ رہے نام اللہ کا

سعد ضیغم

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو غزل از شہزاد واثق