تم اب جو لکھنا
تم اب جو لکھنا
تو موسموں کی اداس آنکھوں میں خواب لکھنا
کہیں کسی کے اجاڑ رستوں پہ روشنی کے گلاب لکھنا
سیاہ راتوں سے خوف کھا کر دبک نہ جانا
نئی صبح کی نزاکتوں پر طہارتوں کا نصاب لکھنا
تم اب جو لکھنا
تو مسکرا کے تمام شکووں کی سرزمیں کے گلے مٹانا
وہ پھول اصلی یا کاغذی ہوں گلے لگانا
تم اپنی چاہت کی خوشبوؤں سے انھیں منانا
میں چاہتی ہوں تم اب جو لکھنا
تو مجھ کو اپنا رفیق لکھنا
گزشتہ صدیوں کی ضد بھلانا
نئے سرے سے محبتوں کے دیئے جلا نا
تم میری پوروں سے زندگی کی نوید لینا
رفاقتوں کی حسین لے پر محبتوں کی کتاب لکھنا
تم اب جو لکھنا
سلمیٰ سیّد