تیری خوشی کے واسطے میں بے وفا ہوا
پر میرے بعد میری محبت کا کیا ہوا
کچھ اس طرح سے جان بدن سے نکل گئی
جیسے قفس سے کوئی پرندہ رہا ہوا
دونوں کے بیچ فاصلے اب اتنے بڑھ گئے
اس کا خدا بھی میرے خدا سے جدا ہوا
اک التجا ہے ہونٹوں کی دہلیز پر پڑی
مدت سے آنکھ میں ہے اک آنسو رکا ہوا
یہ سطح آب پر ہے کہانی لکھی ہوئی
کشتی کے ڈوبنے کا سبب نا خدا ہوا
پہلے برہنہ ہو کے جسے ناچنا پڑا
پھر اس کو بادشاہ سے خلعت عطا ہوا
پھر یوں ہوا کہ خواہش دنیا بھی مر گئی
دست سوال جیسے ہی دست دعا ہوا
سید عدید اس کے لیے بھی دعا کرو
اس قبر پر کوئی نہیں کتبہ لگا ہوا
سید عدید