طارق فتح کیسے پیدا ہوتا ہے ؟
بیرون ملک پاکستانیوں میں دو چیزیں بہت زور شور سے بکتی ہیں ،ایک مذہب دوسرا حب الوطنی ۔ کوئی بھی اس کا ٹھیلا لگا لے ،منافع ہی منافع۔ المیہ یہ ہے کہ بیچنے والے صرف اپنے ذاتی منافع پر نظر رکھے دکاندارہو تے ہیں اورخریدنے والے صرف جذباتی ۔ نہ دکاندار کو ہوش کہ ایسے سودوں میں کیا نقصان کما رہا ہے نہ خریدار کو سمجھ کہ کیا نقصان خرید رہا ہے؟
سادگی کا تعلق ، کسی ڈگری سے نہیں اور مکاری کا تعلق بھی کسی خاص شعبے سے نہیں ۔ استعمال ہو نے والے اور استعمال کرنے والے کہیں بھی ، کسی بھی جگہ پائے جاتے ہیں ۔ خلوص ، شعبہ یا ملک بدل لینے سے بدل نہیں جاتا ۔۔ ہاں کاریگر لوگ علاقہ بدل لینے سے خود بھی بدل جاتے ہیں ۔ جس انسان میں لوگوں کو ضرورت کے مطابق استعمال کرنے کی صلاحیت ہے وہ سب سے بڑا قابل انسان ہے ۔سول ایوارڈز پر بہت سوال اٹھ رہے ہیں، اس میں ایسا کیا نیا ہے ؟آج کل تو ایوارڈ دینے والے یہ دیکھتے ہیں کہ ان کو” خود” اس ایورڈ میں کیا بچے گا ؟ ایوارڈ کے یہ کھیل تماشے اور لوگوں کو اپنی ضرورت کے مطابق پچکارنا اور ہشکارنایہ صرف پاکستان کے اندر ہی نہیں ملک سے باہر بھی یہی ان کے ساتھ ہو رہا ہے۔
یہ مضمون بے ربط تو لگ رہا ہو گا مگر اس کا ربط یہی ہے کہ ہم لوگ ایک قوم کی حیثیت سے اخلاقیات کی جس آخری سیڑھی پر کھڑے ہیں اس کے بعد تو قبر کا اندھیرا ہی رہ جاتا ہے۔ ۔فردوس عاشق اعوان ( ہر پارٹی کی حکومت میں رہ چکی ہیں )،نہ کوئی سٹینڈنگ نہ کوئی اصول ، نہ سچ ، نہ بہادری ،ایک اپنی غرض کی بندی اور کچھ بھی نہیں ۔۔ وہ ہمارے درمیان اونچے پائیدان پر بیٹھ کر ہمیں سمجھا رہی ہیں کہ ہم پاکستان کا نام دنیا میں کیسے بلند کر سکتے ہیں ۔۔ ہم پاکستانی ۔۔۔۔۔۔؟ سہاروں سے اوپر آنے والے، سہاروں کو استعمال کر نے والے ہمارے یہ سیاستدان اور فارن آفسز میں بیٹھے ہمارے ایمبیسڈرز ، اور ہمارے ہی سپانسر شپ پر آئے ہو ے ملا حضرات ہم عام سی پاکستانی مخلوق کو یہ تلقین کرتے بلکہ اکساتے نظر آتے ہیں کہ ہم جان اور عزت پر کھیل کر اسلام اورپاکستان کا پرچم کیسے بلند کر سکتے ہیں ۔۔۔ عام پاکستانیوں کے کندھوں پر جو ملک کی حرمت کا بوجھ ہے وہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا ایک بے غیرت خاندان کی غیرت کا سارا بوجھ لڑکی کے نازک کندھوں پر ڈال دیا جاتا ہے اور اس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ لڑکی گھر سے بھاگ کر پو رے خاندان کے منہ پر کالک پو ت دیتی ہے۔
اپنی غرض سے بندھے یہ سیاست دان،ملا صاحبان اور عہدے داران ہم جیسے جذباتی احمقوں کو اپنے چولہے کا ایندھن بناتے ہیں کیونکہ ہم لوگ اپنی ثقافت اور مذہبی حوالے سے ان مغربی ممالک میں آکر پہلے سے ہی انسیکیور ہو ئے ہو تے ہیں ۔ ان کے جھوٹے دلاسے ،ہم ڈوبتے ہو وں کو تنکے کا سہارا لگتے ہیں ۔۔ مگر یہ بھید انہی لوگوں پر کھلتا ہے جو ڈسے جاتے ہیں ۔ ۔۔
باہر بیٹھوں میں کچھ لوگ ہیں جو اپنی دھن میں لگے رہتے ہیں ۔ انہیں نہ کسی ایوارڈ کا لالچ ہو تا ہے اور نہ کسی سے کوئی امید ہو تی ہے ، مگر ان کی سنوائی بھی کہیں نہیں ہو تی ۔ وہ جتنے مر ضی اچھے رائٹر ہوں ، سپیکر ہوں ، صاحبِ علم ہوں ان کی سپورٹ کے لئے ایک بھی بندہ سامنے نہیں آتا ۔ یہاں ایک صاحب ہیں جا وید چوہدری ، وہ اتنے سالوں سے پاکستان سے باہر رہنے کے باوجود، جس جس فورم پر مو قع ملتا ہے وہاں وہاں پاکستان کا دفاع کرتے ہیں ۔ ان کی قابلیت اوران کی شخصیت میں جو پاکیزگی اور سچائی ہے وہ غیر پاکستانیوں اور غیر مسلمانوں کے لئے ایک اچھی مثال ہو سکتی ہے ، مگر ان کو پوچھنے والا کون ہے ؟ کیونکہ وہ یہ نہیں جانتے کہ کس کو کب اور کیسے استعمال کرنا ہے حالانکہ ان کی سچائی ، پاکستان کا پرچم بلند کر سکتی ہے مگر یہ خلوص اور یہ سچائی ناکافی ہے ۔۔اور ایک اور برائی جو، ان کی ذات میں ہے ، وہ ہے کسی بھی ملا ، کسی بھی عہدے دار کسی بھی سیاستدان سے مرعوب ہو ئے یا ان کا چارہ بنے بغیر آسانی سے زندہ رہ سکتے ہیں۔ ۔۔ تو جو انسان نہ کسی کو استعمال کرنا جانتا ہو اور نہ کسی کے استعمال میں اندھا دھند آسکتا ہو ۔۔ ایسے انسان اپنے خلوص ، سچائی اور وفا کے ساتھ اپنی لڑائی میں چاہے وہ ملک کی ہو یا مذہب کی ،تنہا ہی ہو تے ہیں ۔ جا وید چوہدری ایسے لوگوں کا ایک” استعارہ “ہیں ۔ ایسے بے شمار لوگ ، جو پاکستان کا روشن چہرہ ہیں مگر اپنے اس غبی پن کی وجہ سے منظر سے غائب ہی رہیں گے ۔۔ اور چپکے سے مرتے جائیں گے اور بدقسمتی سے ان کی جگہ بھرنے کو ان جیسا کوئی بھی نہیں ہو گا ۔۔ کیونکہ آنے والی نسلیں یہ دیکھ رہی ہیں کہ فائدہ کس چیز میں ہے ۔ جو اس نظام ہستی میں سود مند ہے اس ہی کی بقا ہے تو فنا اور تنزلی کا راستہ کون اپنائے گا ؟
میرا ذاتی المیہ بھی جاوید صاحب سے مختلف نہیں پاکستان کی بہتری کے لئے لکھتے ہوئے سالوں گذر گئے مگرلوگوں نے میری اس کاوش کو اس دن قبولیت کی سند دی جب ایک قونصلیٹ کے سرکاری آفیسر نے میرا تعارف کروانا شروع کیا ۔۔ آج بھی جب لوگ مجھے میری کسی اورتحریر کے حوالے سے نہیں بلکہ قونصلیٹ میں چودہ اگست کو پڑھے صرف اس مضمون سے پہچانتے ہیں تو میں اندر سے مر جاتی ہوں کہ اگر میری تحریر انہیں پہلے متاثر نہیں کر سکی یا ان تک پہنچ نہیں سکی تو اب کیوں ؟ صرف ایک سرکاری مہر کے لگتے ہی میں، روبینہ فیصل ایک محب وطن اور باکمال ادیبہ بن گئی ؟ اس سے پہلے ایک اردو میں کالم لکھنے والی کم علم کالم نگارتھی ۔۔
میں نے پاکستان کے لئے ٹاک شو کرتے کرتے بچوں کے وقت کی قیمت پر کئی ویک اینڈ برباد کر دئیے ۔ ٹورنٹو میں بسنے والے زیادہ تر ادیب اور دانشور ، وہ ہیں جو پاکستان کی تباہی اور بربادی کے خواب دیکھتے ہیں ۔ پاکستان کی چھوٹی سی غلطی بھی انہیں ناقابلِ معافی اور انڈیا کا بڑا سا گناہ بھی انہیں ثواب نظر آتا ہے ۔ میں پاکستان کی وہ طوطی بنی رہی جس کی آواز نقار خانے میں کو ئی نہیں سنتا ۔ تحقیق اور علم سے وہ پہلو سامنے لانے کی کوشش کی ،جنہیں کو ئی اور نہیں دیکھتا تھا ۔۔ ہر تاریخ کے دو رخ ہو تے ہیں ، پراپیگنڈا کی طاقت سے ، دنیا کے سامنے یا ہماری نئی نسل کے سامنے صرف وہ رخ لایا جاتا ہے جو پاکستان اور اسلام کو نقصان پہنچاتا نظر آتا ہے ۔ ۔۔ اس کو تقویت صرف مخالفت میں پراپگنڈا کرنے والوں سے نہیں ملتی بلکہ اوپر بیان کئے گئے مطلبی اور دوغلے سیاست دانوں ، عہدے داروں اور ملا وں کی شخصیتوں کے زیرِ اثر پیدا ہونے والے سطحی قسم کے محب وطنوں اور مسلمانوں سے کہیں زیادہ ملتی ہے ۔ ایسے استعمال کرنے والوں کے رویوں سے پیدا ہونے عمومی رویے بیرون ملک کس قسم کا گند پیدا کر رہے ہیں اس کا نہ یہ لوگ اندازہ لگا سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں اس کی فرصت ہے کیونکہ وہ اپنی ناک ، اپنی ذات سے آگے دیکھنے کی صلاحیت سے ہی محروم ہو تے ہیں ۔۔ امریکہ نے جب روس ، افغانستان جنگ میں ، وہاں مجاہدین پیدا کئے ، انہیں استعمال کیا اور پھر انہیں رینگتا ہوا چھوڑ کر آگے بڑھ گیا یہ پرواہ کئے بغیر کہ اب ان جذباتی اور مخلص لوگوں کی بقا کا کیا بنے گا ؟ تو وہی مجاہدین ، دہشت گرد بن کر خود کو بچانے اور دوسروں کو تباہ کرنے میں لگ گئے ۔۔ یہی حال ہمارے ملک کے بااثر لوگوں کا ہے ۔ یہ صرف اپنی خاطر ، معصوم لوگوں کے مذہب اور حب الوطنی کے جذبوں کو استعمال کرتے ہیں ۔۔ اپنا الو سیدھا کرتے ہیں اور پھر انہیں بے نام و نشان چھوڑ کر پیچھے مڑ کر دیکھتے بھی نہیں ۔اس لئے کوئی بھی عام فہم والا اتنا ہی اس نقصان کے سودے میں پڑتا ہے جتنا اس کی اپنی ذات کو فائدہ ہو تا ہے ۔۔۔ اور یہاں ٹورنٹو میں فائدہ طارق فتح بننے میں نظر آتا ہے کم از کم پاکستان ور اسلام دشمنی کو خریدنے والے ، اتنے خود غرض اور اپنی ذات کے اسیر نہیں ہو تے ۔ وہ دنیا میں کہیں بھی ہو اپنے طارق فتحوں کو تنہا نہیں چھوڑتے ۔۔۔۔۔
کسی پاکستانی نے مجھ سے شکوہ کیا کینڈا والوں نے انڈیا کو طارق فتح اور سنی لیون اور ہمیں مولانا طاہر القادری کیوں دیا ؟
میں نے جواب دیا اچھا بکنے والوں کومعلوم ہو تا ہے کہ ان کی قیمت کہاں زیادہ لگ رہی ہے اور قیمت کے ساتھ ساتھ پزیرائی بھی ٹھیک ٹھاک مل جائے تو سونے پر سہاگہ ہو جاتا ہے ۔
مجھے کشمیر پر ایک تحقیقی پروگرام کرنے کے لئے ریسرچ کا ایک پارٹنر یا کو ہوسٹ ڈھونڈنا ناممکن سا ہو گیا ہے، اور میں تنہا بیٹھی ، تاریخ کی کتابوں میں سر کھپاتے کھپاتے تھک کر کئی دفعہ ہمت ہارتی ہوں ،کئی دفعہ کھڑی ہو تی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگرہمارے “سطحی یوزرز “تالاب میں گہری ڈبکی لگانے کے نااہل ہو تے ہیں ، جو ان کے سامنے ، ان کے اپنے مطلب کو پورا کرتا کوئی احمق مل جائے یہ سارا دھیان اس کی طرف لگا دیتے ہیں ۔کسی بڑے مقصد کا ان سطحی مینڈکوں کو کیا پتہ ، پاکستان کی تننزلی کے اسباب جب لکھے جائیں گے تو یہ سبب بھی وہاں لکھا جائے گا کہ کیسے پاکستان کے لئے مفت لڑائی لڑنے والوں کا مقدر تنہائی اور رسوائی بن گیا تھا ۔۔اس لئے طارق فتح بننا آسان ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔طارق فتح بننا سود مند ہے ۔۔وہ ایسی قوم کے ہاتھوں پیسوں میں بکتا ہے جنہیں اپنی خاطر بکنے والوں کی قدر ہو تی ہے ۔