جو بے رخی ہوئی، تاثیرِ مدعا بھی گیا
کہ رفتہ رفتہ یونہی اپنا رابطہ بھی گیا
سنا سنا کہ وہ اپنے دکھوں کے افسانے
بمثلِ گریہِ شبنم مجھے رلا بھی گیا
وہ شخص کہتا نہیں تھا فقط، بناوں گا
زمانے بھر میں وہ تنہا مجھے بنا بھی گیا
وہ جس کے ہونے سے دل کو سکون ملتا تھا
مرے سکون کو وہ خاک میں ملا بھی گیا
مجھے ہے فخر مری زندگی میں ہجر نہیں
یہ کہنا باقی نہیں تھا کہ ہجر آ بھی گیا
نہیں تھا شور فقط خامشی مٹانے کا
مرے سکوت کو رستا نیا دکھا بھی گیا
وہ شخص خواب تھا آندھی تھا یا نجانے کیا
ہوا کی طرح سے آیا تھا اور چلا بھی گیا
مجھے لگا کہ اچانک تپاک سے مل کر
مری وفا وہ مرا ذہن آ زما بھی گیا
احمد ابصار