شور ایسے مچا رہے ہو تم
جیسے دنیا چلا رہے ہو تم
چاک پر شکل کیسے بنتی ہے
کوزہ گر کو بتا رہے ہو تم
آنکھ میں ایک خواب تک نہيں ہے
اور آنکھیں دِکھا رہے ہو تم
کون سے سُر تمہیں سکھائے تھے
اور کس لَے میں گا رہے ہو تم
یہ کہانی مری بُنی ہوئی ہے
اور مجھی کو سنا رہے ہو تم
کون سے شہر میں پڑاﺅ ہے
کس کا بستہ اٹھا رہے ہو تم
آدمی ہو کہ پھول ہو کیا ہو
آگ میں مُسکرا رہے ہو تم
شاعری ہو نہيں رہی ہم سے
اور آنسو بہا رہے ہو تم
عمران عامی