شہر ویران کے دروازے سے لگ کر روئے
اپنی پہچان کے دروازے سے لگ کر روئے
اتنا پتھر تھا مکاں اس کا کہ یوں لگتا تھا
ہم بیابان کے دروازے سے لگ کر روئے
اب تو ہم کتنی دفعہ آنکھوں کی عادت کے طفیل
غم کے امکان کے دروازے سے لگ کر روئے
اب اگر ٹوٹ گئے ہو تو شکایت کیسی
کیوں کسی مان کے دروازے سے لگ کر روئے
ہم ستائے ہوئے دنیا کے ترے بعد اکثر
تیرے احسان کے دروازے سے لگ کر روئے
کوئی آواز، تسلی نہ دلاسہ نکلا
کیسے انسان کے دروازے سے لگ کر روئے
ہم نے کب دل سے کہا تھا بھری برساتوں میں
تیرے پیمان کے دروازے سے لگ کر روئے
سادگی دیکھئیےنینوں کی کہ سب کچھ کر کے
دلِ نادان کے دروازے سے لگ کر روئے
میرے دروازے سے کترا کے گزرنے والے
کسی انجان کے دروازے سے لگ کر روئے
والئی شہر تو نشے سے نکلتا ہی نہ تھا
لوگ دربان کے دروازے سے لگ کر روئے
حکمرانی کاسبق سیکھا علی مولا سے
رب رحمان کے دروازے سے لگ کر روئے
میرے ایمان پہ ہنستے تھے جو کچھ اہل خرد
میرے ایمان کے دروازے سے لگ کر روئے
خواب میں دیکھا کہ آزردہ بہت تھے اور پھر
اپنی دل، جان کے دروازے سے لگ کر روئے
ہم عزادار ہیں روتے ہیں جہاں رونا ہے
تم تو شیطان کے دروازے سے لگ کر روئے
دل کے دروازے پہ روئے تو لگا ہے فرحت
جیسے زندان کے دروازے سے لگ کر روئے
میں تو رووں گا در کعبہ سے لگ کر فرحت
اور وہ بھگوان کے دروازے سے لگ کر روئے
فرحت عباس شاہ