رخ سے نقابِ سبز اڑا لے گئی ہوا
گریاں ہوئی زمین کہ کیا لے گئی ہوا
آندھی چلی تو خیموں سے گویا تھی روشنی
ہائے مرا مآل، ہوا لے گئی، ہوا !
خونابِ خوش خصال کے دریا رواں تو تھے
پانی کیوں چھاگلوں سے اچھالے گئی ہوا ؟
صدقہ تھا صبح نو کا، سو گریہ کریں گے کیوں
گر زر ہماری شب سے اٹھا لے گئی ہوا
کیسی دلیلِ حق ہے کہ تیرے فقیر کا
پانی پہ جب مصلٰی بِچھا، لے گئی ہوا
ریتی پہ جب بریدہ ملا دستِ چارہ ساز
چوما اور اس سے اذنِ قضا لے گئی ہوا
طوفاں میں آیتوں کی صدا سر بلند تھی
رندوں سے شاعری کا نشہ لے گئی ہوا
ماہ نور رانا