رند مدہوش ہیں اور جام اٹھاتے بھی نہیں
عذر پینے میں بھی ہے اٹھ کے یہ جاتے بھی نہیں
تو میسر نہ ہوا آج تلک جانتے ہیں
ساقیا تجھ سے مگر آنکھ ہٹاتے بھی نہیں
دیکھتے بھی نہیں وہ مجھ کو بلاتے بھی نہیں
میری آغوش سے کیوں اٹھ کے وہ جاتے بھی نہیں
ساقیا روز بھلا کیوں ترے جلوے دیکھیں
تیرے عاشق بھی نہیں ہم ترے ماتے بھی نہیں
روتے پھرتے ہیں گلی کوچوں میں رند اور خستہ
دل مگر اپنا وہ ظالم سے بچاتے بھی نہیں
ذیشان احمد خستہ