روشِ حسنِ مراعات چلی جاتی ہے
ایک اردو غزل از حسرت موہانی
غزل
روشِ حسنِ مراعات چلی جاتی ہے
ہم سے اور ان سے وہی بات چلی جاتی ہے
اس جفا جو،سے بہ ایماے تمنا اب تک
ہوس لطف و عنایات چلی جاتی ہے
ہم سے ہرچند وہ ظاہر میں خفا ہیں، لیکن
کوششِ پرسشِ حالات چلی جاتی ہے
اس ستم گر کو ستم گر نہیں کہتے بنتا
سعی تاویل خیالات چلی جاتی ہے
نگہ یار سے پا لیتے ہیں دل کی باتیں
شہرت کشف و کرامات چلی جاتی ہے
حیرت حسن نے مجبور کیا ہے حسرتؔ
وصل جاناں کی یوں ہی رات چلی جاتی ہے
تشریح
روشِ حسنِ مراعات چلی جاتی ہے
ہم سے اور ان سے وہی بات چلی جاتی ہے
حسن والوں کا دستور ہے کہ وہ عشق کو نظر اٹھا کے دیکھنا گوارا نہیں کرتے۔اور عاشق ہے کہ ایک نگاہ کرم کا تقاضا لیے بیٹھا رہتا ہے۔اب شاعر کہتا ہے کہ حسن کی وہ کنکھیوں سے دیکھنے کی روش جاری ہے اور ہماری اور ان کی وہی بات جو حسن و عشق کا دستور ہے، چلی جارہی ہے۔
اس جفا جو،سے بہ ایماے تمنا اب تک
ہوس لطف و عنایات چلی جاتی ہے
عاشق کی تمنا ہوتی ہے کہ محبوب اس پر لطف و عنایت کرے، وہ کرتا نہیں ہے۔اب شاعر کہتا ہے کہ وہ ستم گر محبوب کبھی مہربانی نہیں کرتا۔مگر اب بھی اس سے لطف و عنایت کی خواہش کہ جو تمنا تھی،کی جاری رہی ہے۔
ہم سے ہرچند وہ ظاہر میں خفا ہیں، لیکن
کوششِ پرسشِ حالات چلی جاتی ہے
شاعر کہتا ہے کہ محبوب اگرچہ ظاہر طور پر ہم سےخفا ہے تاہم حالات کی خبر گیری کی کوشش بھی ہو رہی ہے۔
اس ستم گر کو ستم گر نہیں کہتے بنتا
سعی تاویل خیالات چلی جاتی ہے
شاعر کہتا ہے کہ محبوب ستم گر ہے لیکن اسے ستم گر کہنا بہت دشوار ہے۔یعنی اسے ستم گر کہے نہیں بنتا۔لہذا جو اسے ستم گر کہنے کا خیال پیدا ہوتا ہے۔اس کی تاویل کی کوشش لگاتار ہو رہی ہے۔اس خیال کو دوسری طرف پھیر دینے کی کوشش ہو رہی ہے۔
نگہ یار سے پا لیتے ہیں دل کی باتیں
شہرت کشف و کرامات چلی جاتی ہے
شاعر کہتا ہے کہ محبوب عجیب اعجاز رکھتا ہےکہ وہ ایک نظر سے عاشق کے دل کا حال جان لیتا ہے۔لہذا اس کے اعجاز و جادو کی شہرت خوب پھیل رہی ہے۔
حیرت حسن نے مجبور کیا ہے حسرتؔ
وصل جاناں کی یوں ہی رات چلی جاتی ہے
وصل کی رات تمنا پوری کرنے کی رات تھی مگر یونہی بے کار جا رہی ہے۔کیوں کہ حسن کی ہی خیرت نے ایسا مجبور کر دیا ہے کہ کچھ سوجھ ہی نہیں رہا ہے۔
بشکریہ:
اردو نوٹس ڈاٹ کام