راج نگرا کا قصاب
اس کہانی کے لکھنے کے وقت تک یہ قصاب زندہ تھا اور اس کی ہلاکت کے لیے میری ہر کوشش ناکام ہوئی تھی۔ نہ صرف مجھے بلکہ دیگر کئی شکاریوں کی دو سال سے زیادہ جاری رہنے والی کوششیں بے سود رہیں۔
یہ شیر غیرمعمولی جانور تھا اور اس کی عادات شیروں سے بہت ہٹ کر اور ایسے علاقے سے متعلق تھیں جہاں برسوں سے کوئی شیر نہیں رہتا تھا۔ ابتداء میں یہ شیر انسانوں کو محض اپنے اگلے پنجوں سے خراشیں ڈالنے تک محدود رہتا تھا۔ اس طرح کے کل 33 واقعات درج ہوئے جن میں اکثریت چرواہوں کی تھی۔ ایک بار بھی اس نے کسی کو نہ جان سے مارا اور نہ ہی کاٹا۔ ہر بار اس نے اپنے شکار کی کھوپڑی سے پنجے مارنا شروع کیے اور منہ اور گردن کے علاوہ سینے اور کمر پر بھی پنجے مارتا تھا۔
اس عادت سے مجھے شک ہوا کہ کہیں یہ شیر کی بجائے تیندوا نہ ہو۔ تاہم جب میں نے بعد میں اس کے متاثرین سے بات کی تو ہر ایک نے تصدیق کی کہ وہ تیندوا نہیں بلکہ شیر تھا۔
میں نے یہ بھی سوچا تھا کہ شاید یہ شیر زخمی ہو یا اسے کسی نے زخم پہنچایا ہو جو اس کے منہ، جبڑے یا چہرے پر لگا ہو اور اسی وجہ سے وہ کاٹ نہ سکتا ہو۔ تاہم چرواہوں نے اس کی بھی تردید کی کہ دو سال کے دوران یہی شیر ان کے 200 سے زیادہ مویشی مار کر کھا چکا تھا اور کہیں بھی ایسا نہیں لگا کہ اس کا منہ زخمی ہو۔ اس نے نہ صرف عام شیروں کی مانند اپنے شکاروں کی گردن توڑی تھی بلکہ ہر جانور کو بالکل شیروں کے انداز سے کھایا تھا۔
اس جانور کی ایک اور عجیب عادت یہ تھی کہ وہ جنگل کے حصے میں رہتا تھا جو خاردار اور نیچی جھاڑیوں سے بھرا ہوا، پتھریلا اور اونچی نیچی پہاڑیوں پر مشتمل تھا جن میں کہیں کہیں ندیاں بہتی تھیں اور ان کے کناروں پر لمبی گھاس اور کہیں کہیں بانس کے جھنڈ بھی ملتے ہیں۔ یہاں تیندوے اکثر آتے جاتے رہتے تھے اور یہاں سے گزرنے والی مرکزی سڑک پر بھی دکھائی دے جاتے تھے مگر موجودہ پوری نسل میں کسی نے کبھی شیر کو یہاں نہیں دیکھا تھا۔
جنگل کا یہ حصہ ڈیم بیم کے پہاڑی مقام سے جنوب میں ضلع شمالی کومبتور میں واقع تھا۔ ڈیم بیم سے 2٫500 فٹ نیچے یہ بارانی اور جھاڑیوں پر مبنی علاقہ ہے جہاں کھجور کے درخت بکثرت ہیں عمومی طور پر خاردار جھاڑیاں موجود ہیں۔ یہاں عام جانور بھی بہت کم ملتے ہیں اور زیادہ تر چند مور اور اکا دکا جنگلی بھیڑ دکھائی دے جاتی ہے۔ یہ علاقہ کافی چھوٹا ہے اور شمالاً جنوباً پانچ میل جبکہ شرقاً غرباً تیس میل پھیلا ہوا ہے۔ مغرب میں اس کا اختتام بھوانی دریا پر ہوتا ہے جو آگے چل کر دریائے کاویری سے مل جاتا ہے۔
ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہ شیر نیلگری کے جنگلوں سے پھرتا پھراتا دریائے مویار تک پہنچا اور یہاں رہنے لگ گیا۔ تاہم اس کی یہاں سے رغبت کی وجہ سمجھ آتی ہے کہ یہاں جگہ جگہ مویشیوں کی پٹیاں موجود ہیں اور سینکڑوں مویشی یہاں چرتے ہیں۔ اس وجہ سے جنگلی حیات جتنی کم ہے، مویشی اتنے زیادہ ہیں اور توازن برقرار رہتا ہے۔ مویشیوں کا شکار شیر کے لیے نسبتاً آسان ہوتا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ شروع شروع میں شیر نے عام انداز سے اپنے شکار کرتا اور انہیں کھاتا رہا اور جب کوئی چرواہا اسے بھگانے کی کوشش کرتا تو بھاگ بھی جاتا۔ تاہم ایک وقت ایسا آیا کہ شیر نے چرواہوں کی مداخلت کو برداشت کرنا چھوڑ دیا کہ اکثر اس کے شکار اس کے ہاتھ سے نکل جاتے تھے۔
پہلا حملہ اس نے ایک چرواہے لڑکے پر کیا۔ جب شیر تازہ ماری ہوئی گائے گھسیٹ رہا تھا تو اس لڑکے نے ایک پتھر مارا جو شیر کے پہلو پر لگا۔ گائے کو چھوڑ کر اس نے لڑکے پر حملہ کیا اور اس کے چہرے اور سینے پر بری طرح پنجے مارے۔ پھر اس نے لوٹ کر گائے اٹھائی اور دور لے جا کر سکون سے اپنا پیٹ بھرا۔
کئی بار چرواہوں نے شیر کو اس کے شکار سے بھگانے یا پھر اس کے پیٹ بھرنے کے دوران اسے بھگانے کی کوشش کی۔ ہر مرتبہ شیر نے حملہ کر کے انہیں پنجے مارے۔
فطری طور پر جوں جوں شیر کے حملے بڑھتے گئے، مداخلت کم ہوتی گئی۔ آخرکار شیر کو پتہ چل گیا کہ اس نے لوگوں کو مارنے کی بجائے زخمی کرنے کی وجہ سے لوگوں نے اس کو تنگ کرنا چھوڑ دیا۔
اس طرح وقت گزرتا رہا۔ قریب دو سال گزر گئے اور مجروحین کی تعداد 33 ہو گئی۔ ان میں سے 11 عفونت سے مر گئے کہ شیر کے پنجوں میں سڑتا ہوا گوشت ہوتا ہے۔ تاہم ان اموات کا براہ راست ذمہ دار شیر نہیں تھا۔ یہ حملے کے نتیجے میں بالواسطہ اموات ہوئیں۔
پھر جولائی 1955 میں ایک چرواہا واپس نہ لوٹا۔ یہ پتہ چل چکا تھا کہ اس پر شیر نے حملہ کیا تھا کیونکہ اس کی چیخیں پاس موجود دوسرے چرواہے نے سنی تھیں مگر فطری بات ہے کہ وہ بھاگ کھڑا ہوا۔ پہلے بھی ایسا ہوتا تھا کہ حملے کے بعد چرواہے خود ہی سڑک پر یا گاؤں تک چل کر پہنچ جاتے تھے۔ تاہم یہ بندہ واپس نہ لوٹا۔ دو گھنٹے بعد اس کی تلاش میں لوگ نکلے۔ یہ لوگ جائے وقوعہ پر پہنچے اور وہاں انہیں مردہ گائے تو دکھائی دی مگر چرواہا غائب تھا۔ ان لوگوں کی ہمت جواب دے گئی اور وہ لوگ واپس لوٹ آئے۔ چرواہے کا پھر کوئی نشان نہ ملا۔
پھر پانچ یا چھ مزید چرواہوں پر حملے ہوئے اور ان میں سے تین زخمی حالت میں لوٹ آئے جبکہ باقی تین نہ لوٹے۔ ان کا پھر کوئی پتہ بھی نہ چل سکا۔ جس وقت سے میری کہانی شروع ہوتی ہے، اس وقت تک سرکاری طور پر 4 اموات اور 36 واقعات زخمی کرنے کے ہو چکے تھے۔ اب یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا شیر ان زخمی افراد کو جنگل میں لے جا کر خود کھا جاتا تھا یا پھر انہیں زخمی حالت میں دیگر جانوروں کا کھاجا بننے کو چھوڑ جاتا تھا۔
میں اس شیر کی وارداتوں کے بارے اکثر اخبار میں پڑھتا تھا تاہم اس بارے تفصیل مجھے پہلی بار محکمہ جنگلات کے افسران کی طرف سے بھیجی گئی۔ چونکہ میرے پاس چند روز کی چھٹی کا حق باقی تھا، سو میں نے اس شیر کے پیچھے جانے کا سوچا۔
میرے پاس جنگل کا نقشہ تھا اور دیگر معلومات بھی کہ وارداتیں کہاں کہاں ہوئی ہیں۔ سو میں نے راج نگرا کے چھوٹے دیہات کو اپنا مستقر بنانے کا سوچا جہاں قیام کے لیے ایک خیراتی ادارے کی سرائے موجود تھی۔ ڈیم بیم کے راستے یہاں تک کا کل فاصلہ 147 میل بنتا ہے اور سڑک اچھی حالت میں تھی۔ سو سٹڈ بیکر پر مجھے کل چار گھنٹے سے ذرا زیادہ وقت لگا اور میں پہنچ گیا۔
مجھے علم نہ تھا کہ کتنا دلچسپ وقت آنے والا ہے۔ میں راج نگرا سے محض دو میل دور تھا اور سڑک پر جا رہا تھا کہ مجھے سامنے تین بندے دکھائی دیے۔ دو آدمی تیسرے کو سہارا دیے لے جا رہے تھے۔ میں نے پاس پہنچ کر دیکھا کہ درمیانی آدمی خون میں نہایا ہوا تھا۔ میں نے رک کر وجہ پوچھی تو پتہ چلا کہ چند منٹ قبل شیر نے اس پر حملہ کر کے پنجے مارے تھے۔ مزید سوالات سے پتہ چلا کہ شیر نے باقاعدہ اس بندے پر گھات لگائی تھی۔ مضروب نے بتایا کہ اسے کسی خطرے کا احساس نہ ہوا اور اچانک شیر اس پر چڑھ دوڑا۔ شیر نے اس کے پاس پہنچ کر اگلے پنجے فضا میں اٹھائے اور اس کے سر اور سینے پر بری طرح پنجے مارے۔ جب وہ نیچے گرا تو شیر اس کے اوپر تھا اور اس بندے نے مدد کے لیے چلانا شروع کر دیا۔ پھر شیر نے اسے چھوڑا اور مویشیوں پر حملہ کیا جو اس کے پاس دوڑ رہے تھے۔ اس بندے نے زمین پر لیٹے لیٹے دیکھا کہ شیر نے ایک نوعمر بھورے بیل پر حملہ کیا اور ہلاک کرنے کے بعد اسے گھسیٹ کر لے گیا۔ چونکہ کوئی اس کی مدد کو نہ آیا تھا، سو اس بندے نے ہمت کر کے سڑک کا رخ کیا جہاں کچھ دیر بعد یہ دو آدمی بھی پہنچ گئے۔
میں نے اس موقع کو نعمتِ غیر مترقبہ جانا اور فوراً ان سے جائے واردات کا پوچھا۔ اس نے تفصیل سے مجھے اس مقام کا بتایا اور پھر میں نے ان میں سے ایک بندے کو ساتھ چلنے کا کہا جبکہ دوسرا بندہ زخمی کے ساتھ راجا نگرا کو لے جاتا۔
اب دونوں میں چخ چخ شروع ہو گئی کہ ان میں سے کون میرے ساتھ چلے گا۔ بظاہر دونوں کو گاؤں میں انتہائی اہم کام پڑ گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ آدم خور کا سامنا کرنے کی ہمت بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے۔ اس بارے تو میں انہیں الزام نہیں دے سکتا کہ وہ لوگ شیر کی حرکات کو بہت دنوں سے دیکھ رہے تھے اور میں ان کے لیے یکسر اجنبی تھا۔ شاید ان لوگوں نے سوچا ہوگا کہ شیر کے آتے ہی میں انہیں اکیلا چھوڑ کر بھاگ جاؤں گا۔
تاہم کافی منت سماجت، دباؤ اور پھر دھمکیوں کے بعد ایک بندہ میرے ساتھ جانے کو تیار ہو گیا جبکہ دوسرا بندہ زخمی کے ساتھ گاؤں کو چل دیا۔
ہم دونوں نے سڑک چھوڑی اور جنگل میں داخل ہو گئے۔ سارا راستہ ہمیں زخمی بندے کا خون دکھائی دیتا رہا۔ ایک جگہ کافی خون دکھائی دیا جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ یہ بندہ میرے اندازے سے کہیں زیادہ زخمی تھا۔ اب مجھے افسوس ہوا کہ میں اسے کار پر ستیامنگلم کیوں نہ لے گیا، جہاں ہسپتال میں اس بیچارے کو طبی امداد مل جاتی۔ اگرچہ یہ میری غلطی تھی، مگر پھر بھی میں نے شیر کے تعاقب کا یہ سنہری موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔
تھوڑی دیر بعد ہم جائے وقوعہ پر جا پہنچے۔ ریت پر ثبت نشانات نے پوری کہانی سنا دی۔ ہم نے پھر تیس گز دور وہ مقام تلاش کیا جہاں شیر نے بیل مارا تھا۔ اب میرے ساتھی نے مزید آگے جانے سے انکار کیا اور مجھے بھی اس کی موجودگی کی ضرورت نہ رہی تھی کہ وہ ضرورت سے زیادہ خوفزدہ تھا۔ اس لیے میں ںے اسے وہیں چھوڑا اور شیر کے نشانات کا تعاقب شروع کیا۔ شیر بیل کو لے کر اس پہاڑی سے کھائی میں اتر کر دوسری پہاڑی کی سمت گیا تھا جو یہاں سے چوتھائی میل دور تھی۔
بدقسمتی سے مجھے اتنی جلدی کی توقع نہیں تھی اور میں نے عام چمڑے کے جوتے پہنے تھے۔ ربڑ کے تلے والے جوتے چلتے ہوئے کوئی آواز نہیں کرتے مگر ان جوتوں سے پتھروں پر چلتے ہوئے کچھ نہ کچھ آواز ہو رہی تھی۔ تاہم ہر ممکن آہستگی کے ساتھ میں آگے بڑھا اور نالے تک پہنچ گیا۔ پھر رک کر میں نے آس پاس بغور دیکھا۔ یہاں جھاڑیاں بہت گھنی تھیں اور نالے کے موڑ پر مزید گھنی ہو گئی تھیں۔ سامنے والی پہاڑی کی ڈھلوانیں نسبتاً کھلی تھیں۔ وہاں شیر یا بیل کی کوئی علامت نہیں دکھائی دی۔ بظاہر یہی لگ رہا تھا کہ شیر نے بیل کو اسی نالے میں کہیں چھپایا ہوگا اور اب شاید اس سے پیٹ بھر رہا ہوگا۔اگر نہ بھی کھا رہا ہوگا تو بھی کہیں آس پاس لیٹا ضرور ہوگا۔
جوتوں کی وجہ سے مجھے نقصان پہنچ رہا تھا اور پیش قدمی سے شیر آگاہ ہو جاتا۔ اگر جوتے اتار کر بڑھتا تو کانٹے چبھتے اور نوکیلے پتھروں سے پیر زخمی ہو جاتے۔ تاہم یہ بھی اہم تھا کہ اس موقع کو ہاتھ سے جانے دینا حماقت ہوتی۔ ایسا موقع قسمت سے ملتا ہے۔ ابھی پانچ بج رہے تھے اور ڈیڑھ گھنٹے بعد سورج غروب ہو جاتا۔
جتنی دیر میں یہ سوچتا، شیر نے پہل کر دی۔ اس نے میری پیش قدمی کو سن لیا ہوگا اور شاید دیکھ بھی لیا ہو۔ اس نے پہلو سے حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ میری لاعلمی میں وہ میری سمت والے کنارے پر اس طرح پہنچ گیا کہ وہ اب میرے پیچھے اور کچھ بلندی پر تھا۔ میں اس کی آمد سے بے خبر سوچ رہا تھا۔ پھر وہ پیٹ کے بل رینگ کر مجھ سے دس فٹ دور ایک گھنی جھاڑی تک پہنچ گیا۔ میں ابھی تک بے خبر تھا۔ اس مرتبہ میری چھٹی حس مجھے خطرے سے آگاہ کرنے میں ناکام رہی۔ جونہی میں نے نالے میں پیش قدمی کا سوچا، میرے پیچھے کان پھاڑ دھاڑ سنائی دی اور شیر نے جست لگائی۔ میں مڑا اور انتہائی قریب سے گولی چلائی جو خالی گئی۔
دھماکے سے ڈر کر یا اپنے سامنے چرواہے کو نہ پا کر یا پھر میرے نیلے کوٹ سسے گھبرا کر شیر نے فرار کو ترجیح دی۔ زور زور سے غراتا ہوا شیر سیدھا جھاڑیوں اور پھر نالے کی سمت بھاگا۔ ہر ممکن تیزی سے میں نے پیچھا کیا اور نالے کی تہہ میں پہنچ کر بیل کی لاش سے ٹھوکر کھائی۔ معائنے سے علم ہوا کہ شیر کھانا شروع کر چکا تھا کہ اس نے میری آمد کو سن کر یا محسوس کر کے حملہ کیا۔
اس جگہ درخت نہیں تھے، سو میں ایک گھنی جھاڑی کے نیچے بیٹھ گیا اور اندھیرا چھانے تک منتظر رہا مبادا کہ شیر واپس آ جائے۔ جب شیر نہ آیا تو سوا چھ بجے میں نے احتیاط سے واپسی اختیار کی۔ جہاں چرواہے کو چھوڑا تھا، وہاں پہنچا تو وہ غائب تھا۔ میں نے سوچا کہ وہ شاید گاؤں چلا گیا ہوگا۔ پھر سڑک پر آ کر میں گاڑی میں بیٹھا اور راجنگرا پہنچ گیا۔
وہاں پہنچا تو دیکھا کہ کافی لوگ جمع تھے اور فارسٹ گارڈ بھی آیا ہوا تھا۔ فارسٹ گارڈ نے بتایا کہ زخمی چرواہے کو پہلے ہی اس کی بیوی اور بھائی کے ساتھ ستیامنگلم ہسپتال بھیجا جا چکا ہے۔ جو چرواہا زخمی کو لے کر آیا تھا، وہ تو موجود تھا۔ مگر میرے ساتھ جانے والا دوسرا بندہ ابھی تک نہیں لوٹا تھا۔
مجھے پتہ تھا کہ جہاں میں نے اسے چھوڑا، وہ وہاں نہیں تھا، شیر بھی بھاگ گیا تھا۔ اب وہ چرواہا کہاں گیا ہوگا؟ یہ تو ظاہری بات تھی کہ وہ شیر والے جنگل میں رات کو کسی قیمت پر نہ رہتا۔ پھر وہ کہاں گیا ہوگا؟ میں یہی سوچتا رہا۔ جب اس کے خاندان والوں نے میرے سوالات سنے تو انہوں نے رونا اور بین کرنا شروع کر دیا۔
اب اندھیرا گہرا ہو چکا تھا، سو گمشدہ بندے کی تلاش ممکن نہین تھی۔ دوسرا اگر شیر اسے لے گیا ہوتا تو نشانات بھی دکھائی نہ دیتے۔ مگر پھر بھی فارسٹ گارڈ کو ساتھ گاڑی میں بٹھا کر میں نے اس جگہ کا رخ کیا جہاں پہلے گاڑی کھڑی کی تھی۔ وہاں پہنچ کر میں نے گارڈ کو کہا کہ وہ گمشدہ بندے کا نام لے کر پکارے۔ مگر بے سود۔ پھر ایک میل مزید آگے سڑک پر گئے اور پھر واپس گاؤں لوٹے۔ اب یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ شیر اس بندے کو اٹھا لے گیا ہوگا۔ شاید جتنی دیر میں بیل کی لاش کے پاس چھپ کر بیٹھا رہا، شیر نے اتنی دیر میں اس بندے کو شکار کر لیا ہوگا۔
اس رات ہم زیادہ دیر نہ سو سکے کہ متوفی کے خاندان والوں کے بین کی آواز سے مسلسل احساس ہوتا رہا کہ وہ بندہ میری وجہ سے مارا گیا ہے۔ شاید اگر میں اس بندے کو زبردستی ساتھ نہ لے جاتا تو وہ شاید اس وقت بھی زندہ ہوتا۔
پو پھٹتے ہی میں واپس اس جگہ لوٹا جہاں اسے چھوڑا تھا۔ یہاں پہنچ کر میں نے نشانات تلاش کرنا شروع کیے مگر ناکام رہا۔
پھر میں نے دائروں کی شکل میں نشانات تلاش کرنا شروع کیے مگر ناکام رہا۔ حیرت کی بات تھی کہ وہ بندہ اچانک کیسے غائب ہو گیا۔ مجھے یہ تو پتہ تھا کہ وہ میرے پیچھے شیر کے تعاقب میں نہیں آیا تھا۔ شاید اکیلا ہونے کی وجہ سے گھبرا کر اس نے سڑک کا رخ کیا ہوگا۔ یہ سوچ کر میں نے سڑک کی جانب تلاش شروع کی۔
جہاں اسے چھوڑ کر گیا تھا، اس جگہ سے تین سو گز دور مجھے کچھ فاصلے پر دو چپل پڑے ملے۔ یہاں چھوٹی اور خشک گھاس اگی ہوئی تھی سو پگ دکھائی نہیں دیے۔ تاہم چپلوں کی حالت سے لگ رہ تھا وہ دوڑتے ہوئے اترے ہوں گے۔ مزید تلاش کرنے پر مجھے ایک جانب ہوا میں سفید رنگ کی کوئی چیز پھڑپھڑاتی دکھائی دی۔ یہ اس بندے کی دھوتی تھی جو جھاڑی میں الجھی ہوئی تھی۔
گھاس پر اور جھاڑیوں پر بھی خون کے دھبے دکھائی دیے اور غور کرنے پر پتہ چلا کہ شیر نے کہاں سے حملہ کیا ہوگا۔ حملے کے بعد وہ متوفی کو لے کر سڑک کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے نالے کی سمت گیا۔ جہاں میں بیل کی لاش پر بیٹھا تھا، شیر اس سے کافی نیچے نالے میں گھسا۔
چوتھائی میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد میں نالے میں گھسا۔ مگر مجھے نہ تو کچھ دکھائی دیا اور نہ ہی کچھ سنائی دیا۔ مجھے علم تھا کہ شیر نے باقیات یہیں کہیں چھپائی ہوئی ہوں گی۔
خاموشی سے دیکھتے ہوئے میں نے اچانک دو کوے دیکھے جو نالے میں مزید سو گز نیچے کی جانب ببول کے خاردار درخت پر بیٹھے شور کرتے ہوئے بار بار نیچے کو دیکھ رہے تھے۔ اب یا تو کوے لاش کو پا چکے تھے یا پھر وہ شیر کو دیکھ رہے تھے جو مجھے دیکھ رہا ہوگا۔
نالے کے عین وسط میں پنجوں کے بل چلتے ہوئے میں آہستہ آہستہ اس جانب بڑھنے لگا۔ اس مرتبہ میں نے ربر سول کے جوتے پہنے ہوئے تھے۔ پچاس گز دور کوے مجھے دیکھ کر خاموش ہو کر اڑ گئے۔
میں نے ان کی نشت کے درخت کو یاد رکھا اور آہستہ آہستہ اس جگہ پہنچا۔ درخت کے عین نیچے نالے کی تہہ میں ایک چٹان سی نکلی ہوئی تھی جس کے پیچھے گمشدہ منیاپا کی ادھ کھائی لاش پڑی تھی۔ نرم ریت پر شیر کے پگ صاف دکھائی دے رہے تھے کہ یہ عام جسامت کا نر شیر ہے۔
ایک بار پھر اس جگہ مچان کے لیے کوئی مناسب درخت نہیں تھا۔ لے دے کے یہی ایک ببول کا درخت ملا جو خاردار ہونے کی وجہ سے ناقابلِ استعمال تھا۔ نہ ہی کوئی بانس کے جھنڈ یا بڑی جھاڑیاں دکھائی دیں۔ یہاں چھپ کر بیٹھنے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ تاہم کچھ نہ کچھ کرنا تو تھا ہی کہ میں منیاپا کی موت کا کسی حد تک ذمہ دار تھا۔
مجھے علم تھا کہ آدم خور سہ پہر سے قبل واپس نہیں آئے گا۔ اگر میں اس جگہ لاش کو چھوڑ جاتا تو گدھ اسے دیکھ کر صاف کر جاتے۔ سو میں نے اپنا خاکی کوٹ اتارا اور لاش کو ڈھانپ دیا اور پھر اس پر پتھر وغیرہ رکھ دیے۔ پھر میں کار کو واپس لوٹا اور راج نگرا لوٹا۔
پہنچ کر میں نے بری خبر سنائی تو متوفی کی بیوہ نے فوراً لاش کو واپس لانے کا مطالبہ کیا تاکہ اسے جلایا جا سکے۔ اسے سمجھانے میں پورا ایک گھنٹہ لگا کہ شام تک لاش وہیں پڑی رہے تاکہ شیر کو مارنے کا موقع مل سکے۔ بڑی مشکل سے اس نے مجھے اجازت دی۔
ناشتے کے بعد میں نے گاؤں کے پٹیل اور فارسٹ گارڈ کے ساتھ بیٹھ کر بات کی۔ انہیں لاش کے مقام کا بتا کر کہا کہ میں دوپہر کو وہاں واپس جاؤں گا تاکہ شیر کا انتظار کروں۔ انہوں نے میرے منصوبے کو احمقانہ کہا جس سے مجھے پورا اتفاق تھا۔ مگر چونکہ ان کے پاس بہتر حل نہیں تھا، سو اسی پر عمل کرنا تھا۔ دوسری صورت لاش کو گاؤں لا کر جلانا تھی مگر اس طرح شیر کو مارنے کا موقع ہاتھ سے نکل جاتا۔
بارہ بجے کے بعد میں لاش سے چند گز دور بیٹھ گیا۔ لاش سے تعفن اٹھنا شروع ہو گیا تھا۔ لاکھوں کی تعداد میں مکھیاں میرے کوٹ پر بیٹھی تھیں اور کوٹ ہٹاتے ہی وہ لاش پر بیٹھ گئیں۔
میں پوری طرح تیار ہو کر آیا تھا اور روئی نتھنوں میں پھنسا لی تھی۔ مگر بو پھر بھی محسوس ہو رہی تھی۔ مجھے متلی ہونے لگی۔ گرمی شدید تھی۔ ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ محض جھاڑیوں سے جھینگر کی آواز آ رہی تھی۔
تین بج گئے، پھر چار اور پھر پانچ۔ ساڑھے پانچ بجے ایک مور نالے کی تہہ میں اترا۔ میں اس طرح ساکت بیٹھا تھا کہ اسے میری موجودگی کا علم نہ ہوا۔ اس سے جنگل میں خاموش اور ساکت بیٹھنے کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔چلتے ہوئے بمشکل دس فٹ کے فاصلے پر اسے لاش اور میں دکھائی دیے تو اس نے فوراً پر پھڑپھڑاتے ہوئے فرار کو ترجیح دی۔
میں بہت پرجوش اور خوفزدہ بھی تھا۔ اس کے علاوہ تعفن سے برا حال تھا۔
پھر پندرہ منٹ کے لیے مکمل خاموشی چھا گئی، ایسی خاموشی جو ہر طرح سے مکمل تھی۔یہ وہی خاموشی تھی جو آدم خور کی آمد سے قبل ہوتی ہے۔
میں بالکل ساکت بیٹھا سامنے اور اطراف میں نگراں تھا۔ تمام تر حسیں پوری طرح بیدار تھیں مگر نہ تو کچھ دکھائی دیا اور نہ ہی کچھ سنائی دیا۔
پھر نالے کے اوپر کی سمت سے جنگلی مرغ کی آواز سے سناٹا ٹوٹ گیا۔ چھ بجے اور پھر سوا چھ۔ پھر ایک شبینہ پرندے کی آواز سنائی دی۔ مجھے علم ہو گیا کہ اب میری واپسی کا وقت ہو چلا ہے۔ تھوڑی دیر میں تاریکی چھانے لگتی اور پھر زمین پر آدم خور کے انتظار میں بیٹھنا خودکشی ہوتی۔
اپنی جگہ سے اٹھ کر میں کار کو لوٹا۔ میں نے پہلے ہی لوگوں کو کہہ دیا تھا کہ وہ مجھے کار کے پاس ملیں تاکہ ہم منیاپا کی باقیات اٹھا سکیں۔ تاریکی تو چھا چکی تھی مگر مجھے علم تھا کہ ہماری تعداد ٹارچ کی روشنی کی وجہ سے حملے کا کوئی امکان نہیں ہوگا۔ اس جگہ لوٹ کر ہم نے ساتھ لائے پرانے کمبل میں باقیات لپیٹیں۔ میرے ہمراہی تو گاؤں کو چل پڑے مگر میں نے گاڑی پر سڑک کا رخ کیا۔
اگلی صبح میں پھر اسی نالے کے آس پاس پھر رہا تھا۔ شیر واپس نہ لوٹا تھا ورنہ مجھے اس کے پگ دکھائی دے جاتے۔ پھر میں نے اس نالے کے ساتھ ساتھ اس جگہ جانے کا سوچا جہاں دو روز قبل بیل کی لاش پڑی تھی۔ میں نالے کے اندر بہت محتاط ہو کر چلتا رہا کیونکہ بعض جگہ اس کی چوڑائی چھ فٹ رہ جاتی تھی اور کئی جگہ پتھروں کے ڈھیر پر خاردار جھاڑیوں کے سوا کچھ اور نہ دکھائی دیتا۔ بیل کی لاش منیاپا کی لاش سے نصف میل سے بھی زیادہ فاصلے پر تھی۔ یہ لاش ایک جھاڑی کے نیچے چھپی ہوئی تھی اور یہ جگہ گدھوں سے محفوظ تھی۔ تاہم جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ شیر پچھلی رات آ کر پوری لاش ہڑپ کر گیا تھا۔ شاید وہ انسانی شکار کو بھلا کر یہاں آیا ہو کہ اس نے مجھے انسانی لاش کے ساتھ بیٹھا دیکھ لیا ہو۔ خیر، اب شیر پر گھات لگانے کے لیے کوئی شکار نہ بچا تھا۔
دوپہر اور شام کو بھی میں پہاڑیوں پر اور وادیوں میں گھومتا رہا اور ندی نالے عبور کرتا رہا۔ کئی بار مجھے شیر کے پگ تو ملے مگر شیر نہ دکھائی دیا۔
اس طرح میں نے تین دن گزارے مگر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ چونکہ میرے پاس ایک ہفتے کی چھٹی تھی تو اب چار دن باقی بچ گئے تھے۔
اگلی صبح میں نے حکمتِ عملی بدلی۔ ایک اونچی پہاڑی پر چڑھ کر میں نے کئی مرتبہ شیر کی آواز نکالی۔ ہر دس منٹ بعد یہ آواز نکالتا رہا مگر جواب نہ ملا۔ دو گھنٹے بعد دوسری پہاڑی پر یہی کام کیا مگر ناکام رہا۔ بظاہر شیر اس علاقے میں نہیں تھا۔
پانچویں روز چرواہے پھر اپنے مویشیوں کو لے کر باہر گئے۔ آپ کو شاید ایسا لگے کہ چرواہے بہت بہادر تھے۔ مگر یاد رہے کہ دیہاتی مویشیوں کا دارومدار اسی پر ہوتا ہے۔ اگر وہ چرانے کے لیے نہ بھیجے جائیں تو وہ بھوکے رہیں گے۔ دیہاتوں کے اندر میں چارے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا۔
اگلی صبح میں ان کے ساتھ گیا اور شام کو بھی یہی کام کیا۔ رات تک شیر کا کوئی نشان نہ ملا۔ چھٹی صبح میں بہت مایوس ہو چکا تھا۔ مجھے لگا کہ اس شیر کے شکار کا موقع پھر نہیں ملے گا۔تاہم میں کر بھی کیا سکتا تھا۔ مویشیوں کے ساتھ جنگل میں جاتا رہا۔
اس روز میں نے بہت میل کا سفر کیا اور اس وقت میں منیاپا کی لاش والے مقام سے آٹھ میل دور تھا کہ کچھ لوگ بھاگتے ہوئے مجھے یہ بتانے آئے کہ شیر نے تین میل دور ایک اور چرواہے پر حملہ کیا ہے۔
میں فوراً ان کے ساتھ جائے وقوعہ کو بھاگا۔ ایک بار پھر واقف علامات دکھائی دیں۔ چہرے، سینے اور پہلوؤں پر بری طرح پنجے مارے گئے تھے۔ اس بندے کا کافی خون بہہ گیا تھا اور چلنے کے قابل نہ رہا تھا۔ تاہم اس بندے پر کاٹنے کا کوئی زخم نہیں تھا۔ سو اسے کار میں ڈال کر میں نے اسے مقامی ہسپتال چھوڑا کہ اس کی حالت کافی خراب تھی۔ پھر جائے وقوعہ کو پہنچا اور جنگل میں گھسا۔ خون کے نشانات سے اس مقام تک جانا آسان تھا۔
تاہم اس بار شیر مویشی ہلاک کرنے میں ناکام رہا تھا کہ مویشی سڑک کو بھاگ گئے تھے۔ اس لیے شیر کی تلاش بیکار کام لگا۔ میں اِدھر اُدھر گھومتا رہا اور شیر کی آواز نکالتا رہا مگر کچھ نہ ہوا اور ایک دن مزید گزر گیا۔
میں نے منصوبہ بنایا کہ اس رات میں پانچ میل تک سڑک پر کار چلاتا رہوں اور سپاٹ لائٹ سے شیر کی آنکھیں تلاش کرتا رہوں۔ سو دس بجے میں نے عمل شروع کیا اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے پانچ میل دور پہنچا اور پندرہ منٹ رک کر واپسی کا سفر اختیار کیا۔ اسی طرح چھ گھنٹے تک میں گھومتا رہا۔
اس طرح ساتواں دن نکلا جو میری چھٹی کا آخری دن تھا۔ آخری حملے کے بعد چرواہوں نے باہر جانا بند کر دیا تھا۔ سو میں اکیلا نکلا۔ دوپہر کو میں کار سے چھ میل دور تھا اور پھر میں نے واپسی اختیار کی۔
میں پہاڑی سے اتر رہا تھا اور نیچے دامن میں نشیب سا تھا۔ فوراً دوسری پہاڑی شروع ہو گئی۔ اس وادی سے کوئی ندی نہیں گزرتی تھی اور چند ایک ببول کے درخت موجود تھے جبکہ مجھے سے پچاس گز آگے شیر باہر نکلا۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو بیک وقت دیکھا اور شیر جست لگا کر ایک خاردار جھاڑی کے پیچھے چھپ گیا۔
رائفل کو شانے سے لگا کر میں احتیاط سے آگے بڑھا اور امید تھی کہ شیر حملہ کرے گا۔ مگر دہشت سے میرا دل بھی دھڑک رہا تھا۔
تاہم حملہ نہ ہوا۔ شاید شیر کی چھٹی حس نے اسے بتا دیا کہ میں شکار نہیں بلکہ شکاری ہوں۔ سو جھاڑی کے قریب پہنچنے سے قبل ہی وہ گم ہو چکا تھا۔ میں نے جھاڑی کے گرد گھوم کر بھی دیکھا مگر شیر جا چکا تھا۔
اس طرح میری چھٹی کا ساتواں اور آخری روز ختم ہوا۔ اب بنگلور واپس جانا تھا۔
اگرچہ یہ کہانی شکار میں ناکامی سے متعلق ہے مگر یاد رہے کہ ہر بار ایسے کاموں میں کامیابی ممکن نہیں ہوتی۔ناکامی اور مایوسی اکثر ہوتی ہیں۔ تاہم محبت، لگن اور کوشش کے ساتھ انسان شیر کو بچھاڑ سکتا ہے۔ تاہم ان سب کے باوجود بھی بہت مرتبہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ مجھے واپسی پر بہت مایوسی ہو رہی تھی مگر فی الوقت کچھ عرصہ میں مزید چھٹی کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ شاید اگلی بار میری قسمت ساتھ دے۔
میں نے منیاپا کی بیوہ کو ایک چیک دیا اور واپس بنگلور روانہ ہو گیا۔ راستے میں خاردار جھاڑیاں کار سے لگتی رہیں۔ میں نے اس شیر کو عارضی کامیابی پر مبارکباد دی کہ نہ صرف اپنی جان بچانے میں کامیاب رہا بلکہ اس لیے بھی اس نے اپنی کاٹنے کی بجائے پنجے مارنے کی عادت کا راز محفوظ رکھا۔
کینتھ