کچھ تو نکلیں گی راز کی باتیں
رو برو ہوں اگر کبھی باتیں
تُو جو بچھڑا تو قیدِ تنہائی
مجھ سے کرنے لگی تری باتیں
کان سنتے ہیں خامشی کو بھی
دل سمجھتا ہے ان کہی باتیں
جب بھی اشکوں نے ترجمانی کی
زیرِ لب رہ گئیں کئی باتیں
بزمِ دنیا میں دل لگی کے لئے
ہر طرف ہیں نئی نئی باتیں
وقت گزرے تو یاد آتی ہیں
دل پہ بیتی ہوئی سبھی باتیں
کل پہ مت ڈال آج ہی کہہ دے
دل میں ہیں جو رہی سہی باتیں
جن کے باعث محال ہو جینا
لوگ دہرائیں گے وہی باتیں
دل کے چھوٹے وہی نکلتے ہیں
جن کے ہونٹوں پہ ہوں بڑی باتیں
منزّہ سیّد