پھر ایک داغ چراغ سفر بناتے ہوئے
نکل پڑے ہیں نئی رہگزر بناتے ہوئے
وہ جست بھر کے ہوا ہو گیا مگر نہ کھلا
میں کس نواح میں تھا اس کے پر بناتے ہوئے
نکل سکی نہ کوئی اور صورت تصویر
بہائے اشک بہت چشم تر بناتے ہوئے
وہ قہر برہمی بخت ہے کہ ڈرتے ہیں
گرا نہ لیں کہیں دیوار در بناتے ہوئے
قدم قدم پہ سزا دے رہا ہے وقت ہمیں
ہمارے عیب عدو کے ہنر بناتے ہوئے
تو زندگی کو جئیں کیوں نہ زندگی کی طرح
کہیں پہ پھول کہیں پر شرر بناتے ہوئے
جلیل عالی