- Advertisement -

کیا پوچھتے ہو عاشق راتوں کو کیا کرے ہے

میر تقی میر کی ایک غزل

کیا پوچھتے ہو عاشق راتوں کو کیا کرے ہے
گاہے بکا کرے ہے گاہے دعا کرے ہے

دانستہ اپنے جی پر کیوں تو جفا کرے ہے
اتنا بھی میرے پیارے کوئی کڑھا کرے ہے

فتنہ سپہر کیا کیا برپا کیا کرے ہے
سو خواب میں کبھو تو مجھ سے ملا کرے ہے

کس ایسے سادہ رو کا حیران حسن ہے یہ
مرآت گاہ بیگہ بھیچک رہا کرے ہے

ہم طور عشق سے تو واقف نہیں ہیں لیکن
سینے میں جیسے کوئی دل کو ملا کرے ہے

کیا کہیے داغ دل ہے ٹکڑے جگر ہے سارا
جانے وہی جو کوئی ظالم وفا کرے ہے

اس بت کی کیا شکایت راہ و روش کی کریے
پردے میں بدسلوکی ہم سے خدا کرے ہے

گرم آکر ایک دن وہ سینے سے لگ گیا تھا
تب سے ہماری چھاتی ہر شب جلا کرے ہے

کیا چال یہ نکالی ہوکر جوان تم نے
اب جب چلو ہو دل کو ٹھوکر لگا کرے ہے

دشمن ہو یار جیسا درپے ہے خوں کے میرے
ہے دوستی جہاں واں یوں ہی ہوا کرے ہے

سمجھا ہے یہ کہ مجھ کو خواہش ہے زندگی کی
کس ناز سے معالج میری دوا کرے ہے

حالت میں غش کی کس کو خط لکھنے کی ہے فرصت
اب جب نہ تب ادھر کو جی ہی چلا کرے ہے

سرکا ہے جب وہ برقع تب آپ سے گئے ہیں
منھ کھولنے سے اس کے اب جی چھپا کرے ہے

بیٹھے ہے یار آکر جس جا پہ ایک ساعت
ہنگامۂ قیامت واں سے اٹھا کرے ہے

سوراخ سینہ میرے رکھ ہاتھ بند مت کر
ان روزنوں سے دل ٹک کسب ہوا کرے ہے

کیا جانے کیا تمنا رکھتے ہیں یار سے ہم
اندوہ ایک جی کو اکثر رہا کرے ہے

گل ہی کی اور ہم بھی آنکھیں لگا رکھیں گے
ایک آدھ دن جو موسم اب کے وفا کرے ہے

گہ سرگذشت ان نے فرہاد کی نکالی
مجنوں کا گاہے قصہ بیٹھا کہا کرے ہے

ایک آفت زماں ہے یہ میر عشق پیشہ
پردے میں سارے مطلب اپنے ادا کرے ہے

میر تقی میر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
میر تقی میر کی ایک غزل