- Advertisement -

محبت میں کرے کیا کچھ کسی سے ہو نہیں سکتا

داغ دہلوی کی اردو غزل

محبت میں کرے کیا کچھ کسی سے ہو نہیں سکتا
مرا مرنا بھی تو میری خوشی سے ہو نہیں سکتا
کیا ہے وعدہ فردا انہوں نے دیکھئے کیا ہو
یہاں صبر و تحمل آج ہی سے ہو نہیں سکتا
چمن میں ناز بلبل نے کیا جب اپنے نالے پر
چٹک کر غنچہ بولا کیا کسی سے ہو نہیں سکتا
نہ رونا ہے طریقہ کا نہ ہنسنا ہے سلیقےکا
پریشانی میں کوئی کا جی سے ہو نہیں سکتا
ہوا ہوں اس قدر محبوب عرض مدعا کر کے
اب تو عذر بھی شرمندگی سے ہو نہیں سکتا
خدا جب دوست ہے اے داغ کیا دشمن سے اندیشہ
ہمارا کچھ کسی کی دشمنی سے ہو نہیں سکت

داغ دہلوی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
داغ دہلوی کی اردو غزل