- Advertisement -

معاصر اُردو غزل کا نمایندہ شاعر- ارشاد نیازی

از ڈاکٹر ساحل سلہری

معاصر اُردو غزل کا نمایندہ شاعر- ارشاد نیازی

جدید اُردو غزل عہد بہ عہد کروٹیں بدلتے ہوئے جب اکیسویں صدی کے دوسرے دہے میں داخل ہوئی تو متنوع موضوعات واسالیب کے اعتبار سے نصف صدی آگے سفرکرتی محسوس ہوتی ہے۔معاصر غزل نگاروں نے اِ س صنف کوا س طرح برتا ہے کہ اس کے خدوخال واضح طور پر نئے نویلے لگنے لگے ہیں۔ اپنی اس رائے کو صادق بنانے کے لیے مجھے ”دلاسا“ کا حوالہ دینا پڑ رہا ہے۔ ”دلاسا“ معاصر اُردو غزل کے نمایندہ شاعر ارشاد نیازی کی غزلوں کا اولین مجموعہ ہے جو گذشتہ دنوں میرے ہاتھ لگا۔سیال کوٹ کے تاریخی قصبہ چوبارہ میں مقیم اس کہنہ مشق شاعر نے اپنے کمال فن اور پختہ گوئی سے معاصر شعرا میں اپنا منفرد مقام بنا لیا ہے۔ ارشاد نیازی کی شاعری میں شہر اور گاؤں کی علامتیں ملتی ہیں۔شہر دراصل ان کے یہاں جدید اور ترقی یافتہ تہذیب کا استعارہ ہیں اور گاؤں پرانی تہذیب اور روایت کی طرف اشارہ ہیں۔ ان کی شاعری چلتے چلتے کچھ وقت کے لیے ماضی کی طرف بھی مراجعت کر جاتی ہے۔یہ شعر دیکھیے:
شہر سے دور ایک گاؤں کا
پیڑ گریہ کریں گے چھاؤں کا
_________
شہرِ تعبیر کی جھلک دیکھوں
خواب ادھڑتے میں کب تلک دیکھوں

گرد اوڑھے بدن پہ خستہ حال
سبز گاؤں تری سڑک دیکھوں
ارشاد نیازی کی غزل میں صبح، شام،رات،دن،تیرگی، روشنی، چراغ،ہوا،چاند، تارے، شب، پیڑ پرندے،فاختہ،دشت،دریا اور ہجرووصال جیسے الفاظ کا استعمال نئے مفاہیم،تلازموں اور موضوعات سے متشکل ہوا ہے۔اس کے یہاں بدن کے پنجرے،صبح بدن کی شاخ،خوشبو کے شب کدوں، حروف اوندھے پڑے ہیں، روشنی اونگھ رہی ہے، چراغوں کی پشیمانی،پرندگی کی سہولت، دن کی منڈیروں پہ، خامشی پھانکتے،خامشی کی چمڑی ادھیڑنا،چہک سینچ رہے ہیں،آنکھ کے کوزے،سسکتا وصل اورپپڑی کا گریہ کا استعمال انتہائی نیا ہے۔ ارشاد نیازی کی غزل کا آہنگ،اسلوب اور موضوعاتی رنگا رنگی ملاحظہ کیجیے:
سکڑتے ہاتھ کی دستک میں گر اثر ہوتا
پرائے ہجر کی دیوار تجھ میں در ہوتا

یہ میری آنکھ یہ عجلت میں نیند مرتی ہوئی
یہ میرے خواب یہ حیرت زدہ سفر ہوتا
صدائیں دیتی مجھے سبز منزلِ مژگاں
خموش، سرخ گلی، شور کرتا گھر ہوتا
__________
نیند تو میں کما کے لاتا ہوں
خواب لیکن چرا کے لاتا ہوں

تم شجر کو ذرا دلاسا دو
میں پرندے بُلا کے لاتا ہوں
ارشاد نیازی کی غزل سماجی رویوں کی عکاسی کرتی ہے۔وہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اس طرح اپنی شاعری کا موضوع بناتا ہے کہ شعریت بھی شعر سے خارج نہیں ہوتی۔ وہ اپنے تجربات،مشاہدات اور احساس کو شاعری کے ذریعے بیان کرتا ہے۔ تیرگی،چراغ،دشت،سفر،پرندے،درخت ارشاد کی شاعری کے استعارے ہیں۔ وہ ان میں کھو کر ایک الگ دنیا کا خواب دیکھتا ہے۔فرزاد علی زیرک،ارشاد نیاز ی کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”ارشاد نیازی کا واحد مقصد شعر کو محض زبان کا چٹخارہ بنا دینا نہیں ہے۔ وہ گھمبیر موضوع لاتا ہے اور اسے اپنی مرضی کی کرافٹ سے اپنی پسند کے سانچے میں ڈھالتا ہے۔ انفراد کا خمیر لہجے کے تیور سے نہیں بل کہ موضوع کے تنوع اور معنی کی تکثیریت سے اٹھتا ہے اور ارشاد نیازی اس میں مکمل کامرانی کے ساتھ محوِ سفر ہے۔“ (۱)
ارشاد نیازی نے اپنے لہجے کی جدیدیت سے روایتی موضوعات کو بھی نیا بنا دیا ہے۔ ان کے شعروں کاموضوعاتی تنوع، مصرعوں کی بنت،نشست وبرخاست،سلاست،روانی،شائستگی اورغنائیت بہت خوشگوار لگتے ہیں۔ یہ اشعار دیکھیے:
روشنی کے سراغ تک پہنچی
جب ہوا اس چراغ تک پہنچی

پیاس آنکھوں کی پتلیوں پہ مری
زندگی جب ایاغ تک پہنچی

اک صدا صبر کی پہاڑی سے
لڑکھڑائی تو راغ تک پہنچی

سوچتا ہوں کہ ادھ مری تتلی
کس طرح کیسے باغ تک پہنچی
ارشادنیازی معاصر اردو غزل کامعتبر اورصاحب ا سلوب شاعر ہے اس کی غزل تخلیقی سچائی کی آئینہ دار ہے۔ اس کی غزلوں میں نہ صرف روح عصر رواں ہے بل کہ کئی جذبا ت اوراحساسات سانسیں لے رہے ہیں۔یہ اشعار دیکھیے:
شکستگی کا فسوں آنکھ میں اُتر جائے
قفس کا رنج سہے اور خواب مر جائے

کوئی تو سمجھے محبت کی بے زبانی کو
کوئی تو ہاتھ پہ چپکے سے پھول دھر جائے

یہ بین کرتی ہوئی لو چراغِ ہجرت کی
بدن کو چیر دے اور آئنے سے ڈر جائے

بس ایک بار وہ اپنا مجھے کہے تو سہی
وہ اپنی بات سے چاہے تو پھر مکر جائے
ارشاد نیازی کی شاعری میں سیونک کی طرح چاٹنے اور اندر ہی اندر مسلسل چلنے والا درد ہے۔ارشاد نیازی کی شاعری تخلیقی وفور کی حامل ہے۔ اس لیے اس کی مقبولیت کے امکانات بڑھتے چلے گئے۔ اس نے غزل کو ایک نئے تناظر میں تخلیق کیا ہے اوروہ اپنے رنگ میں غزل کہہ کر سب کو متوجہ کر رہا ہے۔ارشاد نے غزل کے رواں منظر نامے میں اپنا مقام مستحکم کر لیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کام یاب سعی کی ہے کہ غزل کا سفر ابھی رکا نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ نئی غزلوں کا یہ مجموعہ بھر پور توجہ حاصل کر ئے گا۔
حوالہ جات:
۱۔ علی زیرک،فرزاد،فلیب، دلاسا از ارشاد نیازی،(لاہور: طلوع اشک پبلی کیشنز،2019)

ڈاکٹر ساحل سلہری

ٍٍٍ (28مئی،2019،سیالکوٹ)

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
چشمہ فاروقی کا ایک اردو افسانہ