آپ کا سلاماردو تحاریراردو ناولعندلیب بھٹی

میڈم – ناولٹ (قسط نمبر 3)

مصنفہ ۔ عندلیب بھٹی

ناولٹ
میڈم

(وہ جو زمانہ چاہتا ہے،اب اُس کی نہیں میری مرضی سے ہو گا)
حصّہ ۔۔۔۔۔۔سوئم

دو برس کا قصّہ سب عیاں تھا ۔بِیچ کے ڈیڑھ برس کی کہانی میں ایسا کیا ہوا کہ عفیفہ سویراابراہیم چودھری بن گئی ۔وقت لمحوں کی صورت گزرتا رہا ۔دھوپ شام کے دھندلکے میں تبدیل ہونے لگی ۔اِس دوران میرے سامنے کے مناظر تبدیل ہوتے رہے ۔مگر میں ،میرا بینچ اور عفیفہ سے جڑا میرا سچ تبدیل نہ ہوا ۔میں نے خود کو گھسٹ کر اٹھایا اور سوچا کہ کہ مجھے دراصل کیا سوچنا تھا ؟سوکھے پتوں کی چرمراہٹ سے قدم ڈول گئے تو پتا چلا کہ کیا سوچنا تھا ۔
۲

بات تو وہیں سے شروع تھی جہاں قدم مکتب کی سمت سے ڈول گئے تھے ۔اب الٹی نہیں ضربِ دو کی گنتی تھی ۔
شام ڈھلے پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ گھسائے فٹ پاتھ پر چلتے میں اپنے اندر سے اپنے آپ کو تلاش کر رہا تھا ۔وہ تبریز کیسے میرے ہاتھ سے پھسل گیا جسے عفیفہ نے تراشا تھا ۔آج پھر مجھے اُس کی تلاش تھی مگر وہ پکڑائی نہیں دے رہا تھا۔نگاہ جھکانے پر پاوں کے نیچے چرمراتے پتے میری ہنسی اڑاتے محسوس ہوئے ۔نگاہ اٹھانے پر پاس آتا جاتا ہر فرد میرا تمسخر اڑاتا دکھائی دیا ۔
محبت نے مجھے تبدیل کر دیا تھا ۔دو برس میں مَیں مکمل کچھ اور تھا ۔مگر گذشتہ ایک روز کی مایوسی نے مجھ پر زیادہ تیزی سے اثر کیا ۔میری ہستی اُس صحرا نورد کی سی تھی جسے پانی کے قریب لا کر بھٹکا دیا گیا ہو ۔ہاں وہ لمحہ ضرور آتا ہے جب اچھے کو اچھا ہونے کا ثبوت دینا پڑتا ہے ۔۔اور جانے کس کس کے ہاتھ سے وہ لمحہ پھسل جاتا ہو گا ۔
شام کا ملگجا ندھیرا مجھ جیسے چھوٹے شخص کے سائے کو بھی بلند کر رہا تھا ۔میں اپنی زندگی کی اِس شام چھوٹے مگر طویل تبریز میں دو برس کے مختصر مگر اصل میں بڑے تبریز کوتلاش کرتا رہا ۔اِس کے لیے کچھ تو ساز و سامان میرے پاس تھا ۔رات کھانے کے دوران ابّو کی مسلسل صحافیانہ نظروں کو نظر انداز کرنے کے بعد میں اپنے پاوڈروم میں تھا ۔عفیفہ کے ساتھ بتائے دو برس کا سامان جن بیگوں میں تھا وہ میرے سامنے کھلے پڑے تھے ۔دونوں بیگ ماضی سے اٹے پڑے تھے ۔باہر جا نے کے بعد اس ماضی سے دامن چھڑانے کے لیے چار پانچ عشق تو کیے ہی تھے ۔جو یہاں آنے کے ساتھ ہی فراموش ہو گئے ۔
۳

یاداشت کی آخری کرن جو ذہن میں چمکی وہ عفیفہ کا سکول میں دروازے سجانے بنانے کی تھی ۔رات بھر میں دانستہ ماضی کے دو برس زندہ کرتا رہا۔ دماغ کے ’’ کیوں ‘‘ کی ایک نہ سنی بس دل کی کی۔۔ایسے میں میں اُس کے ماضی اور حال کا موازنہ بھی کرتا چلا گیا ۔ ۔جس نے مجھ پر افسردگی کی گرد ڈال دی ۔اِس کے بعد یہ ہر شب کا معمول ہو گیا ۔۔پھر کسی بھی وقت تنہائی میںیہ کیفیت طاری ہونے لگی ۔بیگ کھولتا تو ان میں رکھی کتابیں شور و غوغا کرنے لگتیں ۔صبح اٹھتا تو پہلا احساس سر میں دھمک کا ہوتا ۔جو رات بھر کی محبت و محنت کا شاخسانہ ہوتی ۔
اُس دن بھی میں چپ چاپ بیٹھا تھا ۔ذہن کچھ سوچنے اور کرنے کی صلاحیت سے خالی تھا ۔اذان کی آواز سنائی دی تو اندازہ ہوا کہ یہ سب ایک شعوری کوشش تھی۔ اس میں روحانیت یا محبت کا عمل نہیں تھا ۔میں خواہ مخواہ مجذوب بن رہا تھا ۔میرے اندر ٹل کھڑکنے لگے ۔بلند ہوتی اذان کے ساتھ دل کا شکرا پھڑ پھڑا کر رہ گیا ۔پتا چلا وہ محض زندگی کا ایک مرحلہ نہیں تھا ۔کہیں اوپر و الا مجھ پر مہربان ہے ۔چندگھنٹوں کی خالی نشست کے بعد دو برس کے تبریز نے صدا دی ۔
’’ یہ درحقیقت کچھ پانے اور کھو دینے کے بعد ایک مخصوص صورتِ حال میں منتخب رویہ ہے۔‘‘
’’ شکریہ ۔۔‘‘
میں اُس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے دو برس کا پھیلا سامان حفاظت سے سمیٹ رہا تھا کہ عفیفہ کا مس تنویر کے لیے غصّے کے اظہار پر جواب سنائی دیا ۔
غلط نمبر کی عینک اور نظریئے میں کوئی فرق نہیں ہوتا ۔ہر منظر دھندلا اور ہر چہرہ بگڑا ہوا ہی دکھائی دیتا ہے ۔‘‘
۴

۔۔تو یہ طے تھا کہ عفیفہ ہی میرے لیے مینارہ ٔ روشن ٹھہری ۔
’’ ۔۔تو اب تم تجسس اور تشویش میں ہو ۔دو برس کا تبریز بڑا ہو رہا تھا ۔۔ہاں !مجھے خوشی ہوئی کہ اوپر والا مجھ پر مہربان تھا ۔
’’ میں جلد ان میں سے ایک پر آنے والا ہوں ۔‘‘
میں مسکرا یا تو لگا وہ دو برس کا تبریز جی اٹھنے پر کھل کر سانس لے رہا ہے ۔یہ محض فہم و ادراک کا ایک مرحلہ تھا ۔۔منزل نہیں ۔
عفیفہ سے ملاقات ہوئے سات روزبیت چکے تھے ۔خانہ جنگی کے بعد آٹھویںروزسے بیبا بچہ بن کر دفتر جاتا اور ایک ہوشیار صحافی کے فرائض خوش اسلوبی سے نبھاتا ۔جس پر والد صاحب بہرحال نہال تھے ۔یہ بھی کہ میں نے عفیفہ کے بارے استفسار کو طول نہیں دیا ۔۔البتہ لوگوں کو شاید حیرانی تھی کہ میں ہر وقت سیل فون کو پکڑے گھورتاکیوں رہتا ہوں ۔اِس دوران وہ مجھے اکثر ٹی وی چینلز پر نظر آئی ۔ ہر چینل پر اِس کا انٹرویوچل رہا ہوتا ۔۔میں ظاہر و باطن دونوں طرح سے اُس کے ساتھ تھا ۔اُس وقت بھی میرے دفترمیں سامنے لگی ساٹھ انچ کی ایل ای ڈی پر وہی دکھائی دے رہی تھی ۔
’’ سر ہمارے چینل پر اِن کا انٹرویو روک دیا گیا ۔۔جب کہ سب سے پہلے میں نے ہی ان کا انٹرویو کیا تھا ۔‘‘
دلنواز کچھ افسردہ تھا ۔
’’ ہم کچھ روز بعد میں چلائیں گے ۔۔مزید نئی معلومات میں دوں گا ۔نام تمھارا ہی رہے گا ۔فکر نہ کرو ۔‘‘
’’ سر وہ ذاتیات پر بات نہیں کرتیں ۔‘‘
۵

’’ دیکھتے ہیں ۔‘‘
میں والد صاحب سے ملاقات چاہ رہا تھا ۔وہ ایسی غلطی کیسے کر سکتے تھے ۔لیکن اِس وقت میری بھر پور توجہ سامنے دیوار پر تھی ۔وہ رائل بلیو مردانہ ڈریس شرٹ کے ساتھ ڈھیلے ڈھالے کریم رنگ کے ٹراوز ر کے ساتھ پولکا ڈاٹس کی بڑی سی شال کو اپنے گرد اُسی طرح لپیٹے ہوئے تھی جیسے میں نے اُسے فنکشن میں دیکھا تھا ۔۔میںنے اُس کی شال کی اِس لپیٹ میں لپٹی روحانیت کو کھول لیا ۔دنیا کے لیے یہ اسٹائل تھا ۔سنا کہ نوجوان لڑکیاں بھی عفیفہ کے شال اسٹائل کی پیروی کرنے لگی تھیں ۔
میزبان کے اِس سوال پر وہ لمحہ بھر کو مسکرائی ۔
’’ یہ میرا اور اُن کا ذاتی فعل ہے ۔‘‘
’’ پھر بھی کچھ تو کہیے ۔‘‘
اینکر کو اُس کے سیدھے سادھا دوٹوک جواب کچھ بھایا نہیں۔ ۔اور وہ تڑکا ڈھونڈنے کی سعی کرنے لگی۔
’’ پسند یدگی اور ناپسندیدگی کوئی وجہ تلاش نہیں کی جا سکی ۔محبت یا نفرت بھی اسی زُمرے میں آتے ہیں ۔‘‘
’’ لیکن سنا ہے کہ والدین بچیوں کے لیے یہ اسٹائل پسند کرتے ہوئے آپ کے شکرگزار ہیں ۔ہم کچھ کلپس دکھاتے ہیں ۔‘‘
کچھ لوگوں کے تعریفی کلمات دکھائے گئے ،جو عفیفہ کے ممنون تھے ۔کہ اُس نے حیا کو اسٹائل دے دیا ۔
’’ میڈم سویرااِس سب پر آپ کی کیا رائے ہے ؟‘‘
’’ وہی جو پہلے کہا ۔۔یہ اُ ن سب کی ذاتی پسند ہے ۔۔جو ناپسندیدگی میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے ۔‘‘
۶

’’ آپ کو کب اندازہ ہوا کہ آپ گا سکتی ہیں ؟‘‘
مجھے ہنسی آئی ۔اینکر نے اپنے بدمزہ تاثرات بامشکل چھپا کر چہرے پر مسکراہٹ سجائے رکھی تھی ۔
’’ اوائل عمری سے ہی ۔۔‘‘
جواب شاید میزبان کے سر سے کئی گنا اوپر سے گزر گیا تھا ۔سو اُس نے مسکراہٹ پر اکتفا کیا ۔
’’دوسال پہلے ہی آپ نے گلوکاری کا آغاز کیا۔اس پہلے آپ کیا کرتی تھیں ۔‘‘
اِس سے پہلے عفیفہ اِس سوال کا جواب دیتی دفتر میں میرے قہقہے پر سامنے بیٹھی اسسٹنٹ حیران رہ گئی ۔مجھے علم تھا اب اُس اینکر کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ۔
’’ یہ میرا ذاتی فعل ہے ۔جو میں نے لوگوں کے سامنے پیش کیا وہ اُس پر ہی بات کر سکتے ہیں ۔‘‘
اِس کے بعد مصالحہ ڈھونڈنے کی کوشش میں اینکر کاعفیفہ کے ہاتھوں وہ حال ہوا کہ طبیعت بشاش ہو گئی ۔
’’ سر یہ ایسی ہی مغرورہیں ۔۔مگر کیا ہے کہ سب کی مجبوری بھی ہے ۔۔کہ انھیں ہائی لائٹ کریں ۔‘‘
میری اسسٹنٹ نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا ۔میں نے اُسے اُس کے کمرے میں جانے کا اشارہ کیا ۔
’’ تو اب تم لوگوں کو مجبور کرنے لگی ہو ۔۔خیر مجبوری تو وہ چار برس پہلے بھی تھی ۔۔مگر شاید آگاہ نہیں تھی ۔۔اوراُس کی اِ سی لاعلمی کا فائدہ اٹھایا جاتا رہا ۔
وہ ہمت جو خانہ جنگی کے بعد فیصلہ کرلینے کے بعد بھی نہ ہو پا رہی تھی ۔آج اُس کے انٹرویو کے بعد مل گئی ۔
’’ ہیلو ۔۔‘‘
’’ آپ کیسی ہیں ؟‘‘
۷

’’ اچھے صحافی ہیں ۔یہ میرا ذاتی نمبر تھا ۔‘‘
وہ بنا کسی حیرانی کے بولی ۔اگلے روز دوپہرتک مخمصے میںرہنے کے بعد میں اُس کے دروازے پر کھڑا ایک بار پھر خود کو سمجھا چکا کہ تھا کہ میں شکایت کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔
’’۔۔ تو کہیے تبریز صاحب کیسے آنا ہوا ؟‘‘
میز پرلوازمات چُن دینے کے بعد وہ براہِ راست میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی ۔
لگا اب نگاہ جھکاتی نہیں اٹھاتی ہے ۔ہچکچاتی نہیں ہچکچانے پر مجبور کر دیتی ہے ۔۔مگر کیا کریں کہ میرے لاکھ نہ چاہنے پر بھی خرانٹ صحافی میرے ساتھ اندر آ چکا تھا ۔
’’ آپ سے ملنا چاہتا تھا ۔حال احوال پوچھنا ۔۔اور بتانا چاہتا تھا ۔‘‘
میں نے قدرے توقف سے جملہ مکمل کیا ۔۔اورمیں نے پہلی بار اُسے قہقہہ لگاتے دیکھا ۔یہ ایک طویل قہقہہ تھا ۔جس نے مجھ سے سرزد ہوئی کوتاہیاں میرے سامنے رکھ دیں ۔ابھی میںشرمندہ ہونے جا رہا تھا کہ وہ بولی ۔
’’ میں ٹھیک ہوں ۔۔اور اپنا حال آپ خود بتانا چاہتے تھے ؟‘‘
’’ کیا ہم پھر سے دوست نہیں بن سکتے ؟‘‘
’’ تبریزمیں اب بھی دوستیاں نہیں کرتی ۔‘‘
جھکی نگا ہ کی نمی مجھ سے اوجھل نہ رہ سکی ۔
’’ اوف۔۔‘‘
میں ایک بار پھر جی بھر کے شرمسار ہوکے صحافی کا گلا دبوچ لینا چاہتا تھا ۔
۸

اُس نے اپنے تینوں بچوں کو مجھ سے ملایا ۔تینوں کی آنکھوں میں ماں جیسی ذہانت اور متانت تھی ۔میں عفیفہ کا بچوں سے ملاکر عزت دینے پر مشکور تھا ۔بچوں سمیت مجھے دروازے تک آ کر رخصت کیاگیا ۔واپسی میں اُس ڈھیلی ڈھالی مردانہ شرٹ میں ملبوس عفیفہ کے ساتھ ساتھ پرانا بھی کچھ لیے جا رہا تھا ۔
۔مگر اُس نے کوئی شکوہ نہ کر کے مجھے اُن پستیوں میں دھکیل دیا جن سے باہر نکلنا ناممکن ہوتا ۔۔اگر وہ دو برس کا تبریز میرے ساتھ مصالحت نہ کر چکا ہوتا ۔
’’ اب اِس کی خاموش مذمت کا کیاکروگے تبریز ۔۔؟‘‘
اب کے میں نے انتظار نہ کیا اور عفیفہ کے سنوارے ہوئے تبریز کے کہنے پر معافی اور شرمندگی کے ساتھ غلط کر جانے کا اعترافی میسیج روانہ کر دیا ۔
’’ جب آپ نے مجھے کہیں نہ کہیں دلاسا دیا میں نے اُنھی دنوں کو یاد رکھا ۔اِس لیے آپ میرے گھر تھے ۔‘‘
’’ پھر بھی میں وہ سب کر گیا جو نہیں چاہتا تھا ۔۔نہیں کہتا تھا ۔‘‘
میں نے فوراََ کہا ۔
’’ وقت کو آواز نہیں دی جا سکتی ۔‘‘
عفیفہ کا جواب مجھے ازسرِ نو بے ربط کر گیا ۔لگا اِ س بار میری اصلاح نہیں کرے گی ۔۔مگرشام ہوتے ہوتے ا للہ ہو اکبر کی صدا پر عفیفہ کے زندہ کئے تبریز نے مجھے جائے نماز پر پہنچا دیا ۔
’’ ہاں ۔وہ اُسی کی جانب سے میری ہدایت کے لیے آئی تھی ۔اُ س کی مشکلات دراصل اُس کی نہیں تھیں
۹

۔وہ سب تو میرے لیے تھا ۔اوہ ۔۔اوہ ۔۔واہ میرے ربّ تیری مصلحتیں۔ہوتا کیا ہے اور انسان سمجھتا کیاہے ؟جب کہ اُس نے بار بار کہا کہ کھوجو ۔۔دریافت کرو ۔۔اور انسان ہر بار علم پر جاہلیت کو فوقیت دے جاتا ہے ۔اب جب کہ مجھ پر سب روشن تھا تو مجھے عفیفہ کے منہ سے کہلوائی گئی بات یاد آ رہی تھی ۔اُ س نے جانے کیوں یہ کہا تھا کہ ’’ تبریز ہر دل کی طاق پر ایک خواہش کا اور ایک نور کا چراغ دھرا ہے ۔‘‘
اوف میں نے کب سمجھا جب کہ مجھے بہت پہلے سمجھا دیا گیا تھا ۔وہ شام اُس رحیم سے غفور سے مغفرت مانگتا رہا ۔۔اور جب کہیں اندر کچھ قرار آیا تو پتا چلا کہ اُس نے مجھے نہیں میں نے اُسے چھوڑ دیا تھا ۔۔ورنہ وہیں خود کو مظلوم سمجھ کرعفیفہ کو بھلانے کی خاطر پانچ کے بعد چھیواں عشق کر رہا ہوتا ۔
عفیفہ کا لائیو شو تھا ۔مجھے دعوت نامہ دیتے ہوئے اُس نے کہا اور کیا ہی خوب سچ کہا ’’آپ نے آ تو ویسے بھی جانا تھا ،سوچا اگلی نشست کے لیے پھر سے محنت نہ کرنی پڑے ۔‘‘
’’ آپ کی برجستگی باقی ہے مگر رنگ آہنگ تبدیل ہو گیا ۔‘‘
بیک اسٹیج پر ہم گرین ٹی پی رہے تھے ۔
’’ لگتا ہے آپ کو گرین ٹی پسند نہیں آئی ۔‘‘
پتا چلا وہ اب بھی ہاں کہتی ہے نا نہ ۔۔۔مجھے وہ اُسی طرز کے لباس میں نِک سُک تیاری میں بھی یکدم مجہول دکھائی دی ۔میں خوش ہونے کے ساتھ غمگین تھا ۔کیوں کہ وہ غمگین تھی ۔میں نے آگاہی کو گالی دینا چاہی مگر کل کی مغفرت یاد آ گئی۔ایک بھرپور اور مقبول شو کے بعد اُس کی آنکھ میں وہی حزن تھا جو میں نے چار برس پہلے دریافت کیا تھا ۔
’’ وہی درد اب بھی ۔۔کیوں ہے؟‘‘
۱۰

’’ درد کی لہر تو تمام ہو جاتی ہے تبریز صاحب مگر ایک سسکی باقی رہ جاتی ہے ۔‘‘
ُ اُ س نے میری آگاہی پر ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ۔گویاوہ اب بھی کئی منزلیںآگے تھی ۔میرے سوال کا جواب مجھے اُس کے ساتھ ہی لے گیا ۔میرا اپنا پن گاڑی کے دروازے پر ہاتھ رکھے کھڑا رہ گیا ۔رات گئے اُس کے جواب کے جاننے میں تھا ۔مگر صبح ہوتے ہوتے لگا کہ اِس تصور میں جان جانے سے زیادہ جان سے جانے کا اندیشہ ہے ۔۔کیونکہ مجھ پرمیری نااہلی ثابت شدہ تھی ۔
’’ میرا خیال تھا آپ انکار کر دو گی ۔‘‘
وہ ہمارے چینل پر میری درخواست پر انٹرویو کے لیے موجود تھی ۔اُس نے نئے ہمیشہ کی طرح رائل ریڈ اور سفید بڑے چیک کی ڈھیلی ڈھالی لمبی مردانہ قمیص اور سیاہ ٹراوزر میں اپنے انداز کی لمبی سی شال اوڑھ رکھی تھی ۔ہیل میں تو میں نے اُسے پرانے ہمیشہ میں بھی نہیں دیکھا تھا ۔والد صاحب کے کمرے میں آنے پر اُس کاچہرہ کسی بھی احساس سے عاری رہا۔
’’ ٹھیک ہوں ۔‘‘
اُس نے سلام کیا نہیں والد صاحب کر نہ سکے ۔سوحال پوچھ کر رہ گئے ۔اُس کا جواب ہنوز اجنبیت کی ردا اوڑے رہا ۔
’’ سر میڈم سے درخواست کرنا تھی ۔‘‘
ہمارا میزبان ڈرتے جھجکتے سوالنامہ عفیفہ کے سامنے رکھتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوا ۔
’’ کہیے ۔‘‘
’’ سر میڈم سوال دیکھ لیں ۔اگر کوئی تبدیلی ۔۔۔‘‘
۱۱

’’ میں نے یہ سب کبھی نہیں کیا ۔آپ جو بھی سوال کرنا چاہیں ۔‘‘
’’ مگر سر ۔۔‘‘
’’ یہ آپ مجھے دے دیں ۔‘‘
’’ سبھی اینکرز آپ کے جوابات سے ڈرتے ہیں ۔اِن کی بہت درگت بنتی ہے ۔یہاں بھی کل سے میرے سامنے معذرت نامے آتے رہے ۔اِسے بھی حکم دیا گیاہے ۔‘‘
’’ آں ہاں ۔۔مجھے علم نہیں تھا ۔میں لغو کو رد کرتے ہو ئے غلو سے اجتناب کرتی ہوں ۔ہر جواب حقیقت پر مبنی ہوتا ہے ۔‘‘
’’ ہوں ۔۔میں جانتا ہوں ۔فرق کس طرف ہے ۔آپ کی جانب کوئی سفارش نہیں ۔‘‘
اُس کی خاموشی نے بتایا کہ یہ غیر اہم بات تھی ۔میں بہرحال محظوظ ہونے والا تھا ۔والد صاحب کا البتہ کرسی پر چوکس بیٹھے ہونے کا یقین تھا ۔
’’ میڈم ناظرین آپ کی ذاتی پسند ناپسند کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں ۔‘‘
تعارف کے بعد سہیل اپنی طرف سے مدافعتی چلا تھا ۔۔مگر میرے لب مسکرا رہے تھے ۔۔وہ عفیفہ تھی ۔زمانے کی میڈم نہیں ۔
’’ مثلاََ۔۔‘‘
وہ کہہ رہی تھی ۔جواب میری توقع کے عین مطابق تھا۔سہیل گڑبڑا گیا ۔بوجھ پھر اُسی کے کاندھوں پر تھا ۔
’’ مثلاََ۔۔مثلاََ کہ آپ کو کون سے رنگ پسند ہیں ؟یا کھانے میں کیا پسند اور ناپسند ہے ۔۔؟یا سیر وتفریح کے لیے کہاں جانا اچھا لگتا ہے ؟اور کس طرح کا لباس پہننا پسندہے ۔۔وغیرہ ۔۔‘‘
۱۲

’’ یہ لوگ ظاہرین کے بارے میں اتنے فکرمند کیوں رہتے ہیں ۔یہ سب میری گلوکاری سے تعلق نہیں رکھتا ۔۔جب کہ لوگوں کے اور میرے بیچ گلوکاری ہی ایک رابطہ ہے ۔‘‘
سہیل ہمارا پرانا اینکر تھا ۔۔اور خود پر گمان بھی رکھتاتھا ۔ایسے تشدد کا عادی بھی نہیں تھا ۔اُس کے ساتھ انٹرویو کے لیے اکثر درخواست آیاکرتی تھی ۔۔سو وہ ہکا بکا رہ گیا ۔۔اُس کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے وہ کیا کرنے والا ہے ۔والد صاحب نے مجھے اُسے روکنے کو کہا ۔۔مگر میرا یساکچھ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا ۔
’’ سنا ہے کہ آپ مغرور مشہور ہیں ۔۔اور یہ کہ آپ کسی سے زیادہ بات کرنا پسند نہیں کرتیں ۔۔اور اپنے علاوہ فیلڈ میں کسی کو خاطر میں نہیں لاتیں ۔‘‘
سہیل کا رویہ مکمل طور پر تبدیل ہو چکا تھا ۔سوالنامہ دکھا کر اُس نے خود کو محفوظ کر لیا تھا ۔اُس کے سوال پرمیرا قہقہہ بلندہوا ۔
’’ زمانہ ناکام کو دیکھ کر ہنستا ہے ۔۔اور کامیاب کو دیکھ کر حسد کرتا ہے ۔‘‘
سہیل کا چہرہ سرخ تھا جب کہ عفیفہ اپنی اُسی طرز پر اجنبی بنی بیٹھی تھی ۔
’’ عوام سوال نہ کریں ۔۔تو آپ یہاں کیسے ہوتیں ۔‘‘
’’ ہر کسی کو دکھائی دینے والی چیز اپنی کیوں لگتی ہے ۔۔؟اور یہاں میں آپ کے اصرار پر ہوں ۔‘‘
’’ آپ نے ایک لابی بنا رکھی ہے ۔۔یہ بھی مشہور ہے ۔‘‘
والد صاحب نے پھر کچھ کہا تو تھا مگر میں عفیفہ کے جواب میں تھا ۔
’’ یہ لابی کے نام پر وہ لوگ ہیں جو میرے منہ پر میرے اور تیرے منہ پر تیرے ہوتے ہیں ۔میں اپنی
۱۳

لابی میں اکیلی ہی کافی ہوں۔۔ اپنے ربّ کے ساتھ ۔۔‘‘
’’ ۔۔تو ایک دن آپ کو پتا چلے کہ آپ کا ستارہ زوال پذیر ہے تب آپ کا کیا ردِ عمل ہو گا ؟‘‘
’’ وقت کی دیمک کا کیا علاج ۔۔مگر لوگوں کے سامنے کیا عروج کیا زوال ۔۔اور ربّ کے سامنے تو ہر پل جھکیں ہی رہیں ۔‘‘
سہیل نے پانی کا گلاس ہونٹوں کو لگایا ۔
’’ میڈم بہرحال ہم انسان ہیں ۔‘‘
سہیل کو ہوش میں لایا جا چکا تھا ۔بزر والد صاحب کی طرف سے گیا تھا۔
’’ بظاہر ۔۔‘‘
عفیفہ کے مختصر جواب نے ہر بار کی طرح تختہ الٹ دیا ۔سہیل کو اندازہ ہو چکا تھا کہ مدِ مقابل اِ س کھیل میں اِس کہیں زیادہ مشاق ہے ۔ایک بات تو طے تھی کہ عفیفہ نے والد صاحب کا بہت بھلا کر دیا ۔
’’ میڈم اگر کچھ برا لگا ہو تو معذرت ۔۔میں تو سوال دکھا رہا تھا ۔‘‘
’’ ۔۔پھر معذرت کیوں چاہتے ہیں ؟‘‘
سہیل اب چاروں شانے چت تھا ۔والد صاحب کو سلام کرتے ہوئے باہر نکل گیا ۔
’’ یہ سہیل اب آپ کو انگلیوں پر نہیں نچا سکتا ۔‘‘
عفیفہ کے رخصت ہونے کے بعد میں نے والد صاحب کو گرماگرم میٹھی کافی پیش کرتے ہوئے کہا ۔
’’ تم بہت خوش ہو ؟‘‘
۱۴

والد صاحب نے روٹھے بچے کے لہجے میں کہا تو مجھے ہنسی آ گئی ۔رات گئے میں اُ س کے تصّور میں تھا ۔دل کچھ کچھ ہلکا ہو رہا تھا ۔۔۔لیکن ہولے ہولے اُس کے تصّورمیں صرف اُس کی آنکھ کا حزن باقی رہ گیا ۔اب لگا کہ اِس تصّور کو طول دینے میں دل کو لینے کے دینے پڑ جانے کااندیشہ ہے ۔
’’ وہ حزن وہ یاس اُس کی آنکھ میں کیوں ٹھہرا ہے ۔وہ مسکراتی نہیں تھی ۔۔مگر اب قہقہہ بھی لگاتی ہے تو اُس کی آنکھ نم ہوتی ہے ۔کیوں وہ مدت سے مسلسل رو رہی ہے وہ کون سی کراہ ہے جو اِس کے اندر کرلاتی رہتی ہے ؟‘‘
۔۔مگر میں کیوں کر پوچھ سکتا ہوں ۔۔؟بھاگ جانے والے کے پاس بھاگ کرآ جانے کا حق نہیں رہتا ۔وہ اتنی ہی وضع دار تھی کہ گھر کا مہمان بنایا ۔مگر ا ُس کے شکوہ نہ کرنے کا شکوہ میں اُس سے کر نہیں سکتا ۔سوچتا ہوں ڈیڑھ دو برس کے پزل کے ٹکڑے کہاں سے اکھٹے کروں ۔جن کو جوڑ کر اُس کی آنکھ کا درد راستہ دے جائے ۔۔جب دو برس کا تبریز دور کھڑا مسکراتا رہا تو ۔۔ پھر ڈھیٹ صحافی نے اپنی شکل دکھائی ۔میںجی جان سے اُس کے ساتھ ہو لیا ۔اسِی کو عافیت مان لیا ۔
’’ آپ کی ڈاکومینٹری میں کتنی قسطیں باقی ہیں ؟‘‘
اُس سے ملنے کی درخواست پر اُس نے گھر ہی بلایا تھا۔ڈرائنگ روم میں داخل ہونے کے بعد بنا کوئی رسمی جملہ بولے وہ ہر بار کی طرح مجھے پورا پڑھ چکی تھی ۔
’’ اجازت لے کر آیا ہوں ۔‘‘
ڈھیٹ بننے کا عہد پورا کرنا ہی تھا ۔
’’ کل میرا کنسرٹ ہے۔آپ کے پاس دعوت نامہ تھا ۔‘‘
۱۵

’’ مسلسل کام کر رہی ہیں ۔‘‘
’’ آپ کو من و سلوٰی مل سکتا ہے ۔میں مسلمان ہوں مجھے چھین جھپٹ کر ہی ملے گا ۔‘‘
میری بیہودہ بات کے جواب میں اُس نے حقیقی منطق بیان کی ۔
’’ عفیفہ جی کچھ پیش ِ روزن اورکچھ پسِ دیوار ہے ابھی ۔۔‘‘
میرے لب آمادۂ استفسار ہو ہی گئے ۔
’’ ۔۔۔ہوں ۔‘‘
’’ نہیں نہیں برائے مہربانی میری نیت میں کوئی کھوٹ نہیں ہے۔‘‘
اُس کا گہری سانس کے بعد ہوں میرے اندر گہرائی تک اترگیا۔
’’ اوکے ۔۔‘‘
اُس کے اوکے کا لہجہ مجھے اوکے نہ رکھ سکا ۔کئی روز شرمندہ رہنے کے بعد پتا چلا کہ میری بات اُسے دکھی کرتی ہے ۔اِس انکشاف نے مجھے سرشار کر دیا ۔میں گئے دنوں کا چراغ لیے ایک چوری کرنے نکل کھڑا ہوا ۔ایک چالاک صحافی آنکھوں پر کالا چشمہ لگائے اُس کو جاننے کے لیے اُس کی بستی میں جا نکلا ۔ اِس محلے میں اُس کے ماضی کے پزل کے ٹکڑے بکھرے ہوئے تھے ۔میںنے اُنھیں سمیٹنے کی خاطر ایک دروازہ کھٹکھٹایا ۔

جاری ہے

آئندہ ۔۔۔۔۔۔۔قسط چہارم۔(آخری)
ناولٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔میڈم
مصنفہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عندلیب بھٹی

عندلیب بھٹی

ریسرچر علم بشریات۔۔مصنفہ۔۔رویہ ساز۔۔۔کاونسلر۔۔۔روحانی طبیبہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button