- Advertisement -

گلچیں

ایک افسانہ از ڈاکٹر عشرت ناہید

گلچیں

آسیہ جسے میں نے اپنے گھر میں کام کے لیے رکھا تھا ایک دم دبلی پتلی سی عورت تھی۔ سن یہی کوئی پچا س کے قریب ، مدقوق سا بدن رنگت گوری مگر پھیکی سی
،نقوش اچھے تھے مگر گال اندر کو دھنسے ہوئے اور آنکھوں کے گرد کے گہرے سیاہ حلقوں نے سب کچھ بد نما سا کر دیا تھا ۔ آنکھیں جو کہ آئینہ ہیں، ساری زندگی کی رمق چمک انہی میں پوشیدہ لیکن آسیہ کی آنکھیں عجب بے رنگ سی تھیں ایک دم خالی خالی ، بے جان سی ، ادھر سے ادھر پتلیاں ایسے چلتی رہتیں جیسے بے قرار ہوں کسی کے لیے ، سوکھی سوکھی سی پتلیا ں خشک سمندر میں تڑپتی مچھلیوں سی لگتیں ،کبھی آنسو بھی تو انہیں جینے کی آرزو دیتے نظر نہیں آتے ،میں انہیں دیکھ کر سوچتی کہ آخر یہ پتلیاں کب تک اس بے آب و گیاہ صحرا سے ماحول میں زندہ رہ لیں گی ، اس کی آنکھوں میں مجھے کسی کی تلاش نظر آتی ہمیشہ بھٹکتی سی محسوس ہوتیں ، کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا کہ یہ آنکھیں کسی آرزو یا جستجو میں تھک چکی ہیں ایک خلاء سا ہے جو ان میں گھر کر گیا ہے ۔
وہ جب سے میرے گھر کام پر آئی تھی تب سے ہی مجھے صرف اس کی آنکھیں ہی نہیں خود آسیہ بھی غم کا مجسمہ ہی لگی تھی ۔ اسے میرے یہاں کام کرتےتقریباً چھ مہینے ہو چکے تھے لیکن ہنسنا تو دور مسکراہٹ کا شائبہ تک اس کے چہرے پر نظر نہیں آیا تھا صرف ایک سپاٹ چہرہ جو ہر قسم کی کیفیا ت سے عاری تھا ۔
میں نے کئی بار اس سے پوچھا بھی تھا کہ ” آسیہ کیا بات ہے تم اتنی خاموش کیوں رہتی ہو ؟ وہ کچھ جواب نہیں دیتی بس سر جھکا لیتی ، کئی بار میں نے دیکھا کہ کام کرتے کرتے وہ نجانے کس دنیا میں کھو جاتی ۔باہر لان کی صفائی کرتے کرتے دور خلاﺅں میں ایک ٹک دیکھتی رہتی ایک سرد آہ بھرتی اور ہوش کی دنیا میں آجاتی اور کام میں مشغول ہو جاتی کئی بار میں نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کچھ پریشانی ہو تو مجھے بتاﺅ ؟ وہ بس خالی خالی نظروں سے مجھے دیکھتی اور ” کچھ پریشانی نہیں باجی “ کہتی ہوئی چلی جاتی ۔

اسے کسی بات سے دلچسپی نہیں تھی ہاں اگر گھر میں ٹی وی چل رہا ہوتا اور وہ لاﺅنج میں ہی کام کر رہی ہوتی تو کہتی کہ باجی ذرا خبریں تو لگا ئیے ،میں حیرانی سے اسے دیکھتی اور چینل بدل دیتی وہ بڑے اشتیا ق سے خبریں دیکھنا شروع کرتی لیکن مجھے جانے کیوں وہ اس وقت بھی بے چین ہی نظر آتی ۔خبروں کا چینل لگوالیتی لیکن ایسا لگتا جیسے ٹی وی میں بھی کچھ ڈھونڈ ھ رہی ہو ۔نجانے کیسی تلاش بسی ہوئی تھی اس میں یا پھر میرا وہم تھا ۔ اس دن بھی اس نے اپنی چپی توڑٰی اور بول پڑی باجی ذرا خبریں لگاﺅ نا ۔میں نے اس سے پوچھا کہ ” تم ڈرامے نہیں دیکھتیں؟ ” تو کہنے لگی اس میں تو سب جھوٹی کہانیا
ں ہوتیں نا اور اس میں تو سچی کے فوٹو دیکھنے کو ملتے اور جہاں کی خبر ہوتی وہاں کے شہر گاﺅں سب دکھائے جاتے ہیں ،کبھی کہیں وہ دکھائی دے جائے !!!!!
”کون “؟؟؟
میں نے حیرانی سے پوچھا
” ارے کوئی نا باجی یونہی بول پڑی “
مجھے اندیشہ ہوا کہ کچھ ہے لیکن کچھ سمجھ نہ آیا ۔
اب مجھے آسیہ کی ذات معمہ سی لگنے لگی تھی اور تجسس سا جاگ گیا تھا کہ آخر کیا راز ہے ؟
میں نے اپنی دوسری کام والی سے بھی پوچھا کہ
” یہ آسیہ اتنی گم سم سی کیوں رہتی ہے ؟”
وہ کہنے لگی کہ
” پتہ نہیں باجی عجیب سی عورت ہے ذیادہ کسی سے بات نہیں کرتی اور حرکتیں بھی عجیب ہیں چلتے چلتے یوں پیچھے مڑ کر دیکھتی ہے جیسے کسی نے اسے آواز دی ہو ، کبھی کبھی تو رک کر کھڑی ہی ہو جاتی ہے اور پوچھو تو کچھ کہتی نہیں اپنی صورت دیکھنے لگتی ہے ، پہلے یہ کسی دوسری جگہ رہتی تھی اس طرف تو ابھی ابھی آئی ہے اس لیے زیادہ کچھ پتہ نہیں ۔ پھر ذرا آواز دھیمی کرتے ہوئے بولی اس کا دماغ کھسکا سا لگتا ہے مجھے تو ۔ کھی کھی ”
ویسے اس نے جو حالات مجھے بتائے تھے ان سے بظاہر کوئی ایسی پریشانی مجھے تو نظر نہیں آتی تھی ، جب وہ کام کرنے آئی تھی تب اس نے بتایا تھا کہ اس کا شوہر نہیں ہے ۔ اس کی تین بیٹیاں ہیں سب پڑھ رہی ہیں۔ ساتھ ہی سب گھر میں گول گپے بنانے کا کام بھی کرتے ہیں ، وہ خود پانچ گھروں میں کام کرتی ہے ، ماں بھی ساتھ رہتی ہے اور ماں کو پینشن ملتی تھی ۔ گزر بسر ٹھیک سے ہوجاتی ہے ۔ اس کے اس طرح کھوئے کھوئے رہنے کی وجہ میری سمجھ سے بالا تر تھی ۔ا س د ن وہ آئی تو اس کی آنکھیں بہت سوجی ہوئی تھیں آنکھوں کا ورم بتا رہا تھا کہ وہ رات بھر سوئی نہیں بلکہ روتی رہی ہے ۔میں نے اسے دو کپ چائے بنانے کو کہا جب چائے لائی تو ایک کپ اسے دیتے ہوئے میں نے پوچھا :
مجھے بتاﺅ کہ تمہارے ساتھ کیا مسئلہ ہے ؟” “اب
نہیں باجی کوئی پریشانی نہیں” اس نےایسے گھبراتے ہوئے کہا جیسے میں نے اس کی کوئی چوری پکڑ لی ہو “
دیکھو تم مجھے باجی کہتی ہو اور بات بھی نہیں بتاتی ہو ؟
وہ کچھ دیر سوچتی رہی ، چائے پینے کے بعد وہ کہنے لگی
“باجی میرا شوہر مجھے بہت پریشان کر رہا ہے وہ کہتا ہے کہ بیٹیاں اپنی ماں کے یہاں لے کر آگئی مجھے میری بیٹیاں دے دے ۔
میں حیران رہ گئی۔
“تم نے تو مجھے بتایا تھا کہ تمہارا شوہر نہیں ہے”
””ہاں باجی کیونکہ میں نے اس سے تعلق ختم کر لیا تھا بیٹیوں ہی کی وجہ سے “
’کیوں بھلا ؟ ‘
’ ایک لمبی کہانی ہے باجی ‘
’تم مجھے الجھاﺅ مت صاف صاف بتاﺅ کیا بات ہے ؟ ‘
’ باجی میری ماں نے میری شادی بہت کم عمری میں کر دی تھی میرا شوہر ایک بیکری پر کام کرتا تھا ۔ میں اس وقت بھی ایسی ہی دبلی پتلی تھی اور جلد ہی میرے یہاں پہلی بیٹی ہو گئی ، چونکہ میرے ساس سسر زندہ نہیں تھے تو بچی کو ہم دونوں ہی مل کر سنبھالتے تھے بلکہ یوں کہیے کہ اس کا باپ ہی اسے سنبھالتا تھا ،حنا تھی بھی بہت پیاری سی ایک دم گول مٹول۔ اس کے باپ کی تو جیسے اس میں جان تھی زرا دیر نظروں سے اوجھل کرنا اسے گوارہ نہیں تھا ، بڑی مشکل سے کا م پر جاتا اور آتے ہی اسے گود میں لے لیتا ، اسے تیل کی مالش کرتا کپڑے بدلواتا میں کہتی رہ جاتی کہ ابھی ابھی میں نے مالش کرکے نہلایا ہے لیکن وہ نہیں مانتا اور دوبارہ اسے تیار کرتا ۔
حنا جب مالش کے دوران قلقاریاں مارتی تو بہت خوش ہوتا اور اس کے پیروں کو اور ذیادہ سہلاتا
جیسے جیسے وہ بڑی ہو رہی تھی اور ذیادہ صحت مند ہوتی جارہی تھی پھولے پھولے گال ،بھرا بھرا جسم اس پر سرخ فراک بالکل گڑیا لگتی اسے دیکھ کر اس کا باپ کہتا
” دیکھ آسیہ میرا بیج کتنا اچھا تھا دیکھ کتنا صحت مند پودا تیار ہوا ہے۔”
“بیج کو مضبوطی تو میری کوکھ نے دی ہے ۔”
“تیری کوکھ تو تیری طرح سوکھا سا کھیت ہے وہ تو میرا بیج ہی دم دار تھا جو ایسے کھیت میں اتنا اچھا پودا تیار ہوا ۔دیکھنا میری ساری فصلیں کتنی شاندار ہونگی ۔”
“ساری ؟؟؟”
’”ہاں دیکھنا اس کے بعد بھی جو بچے آئینگے وہ بھی ایسے ہی صحت مند ہونگے لیکن ایک بات ہے آسیہ کہ حنا کی بات ہی الگ ہوگی ۔”‘
ہاں یہ تو ہے آخر کو حنا نے ہمیں ماں باپ کا رشتہ جو دیا ہے‘
“’تو نہیں سمجھے گی ‘”
”تو سمجھا دو نا “
اتنے میں اس کے دوست رفیق نے آواز دے دی اور وہ بات ادھوری چھوڑ کر باہر چلا گیا ۔
دن یونہی بیتتے گئے اور ایک کے بعد ایک دو بیٹیاں اور ہو گئیں ۔میں ان دونو ں کو سنبھالنے میں ہی بے حال ہوتی گئی اورحنا باپ سے ذیادہ قریب ۔ وہ اسی کے ساتھ کھانا کھاتی اسی کے پاس سوتی
باپ بیٹی کے اس پیار کو دیکھ کر میں خوش ہوتی ۔اس کا باپ زرا دیر بھی اس سے دوری برداشت نہیں کر پاتا۔ دکان پر سے آتے ہی اسے گود میں اٹھا لیتا کھانا کھلاتا اس کے ساتھ کھیلتا اور کھیل اس کا وہی ہوتا کہ تیل سے مالش اور پھر اس کے پیروں بازوﺅں کو سہلانا اس کے تلوﺅں میں گد گدی کرنا اور وہ ہنستے ہنستے لوٹ جاتی تو وہ اسے اٹھا کر بے تحاشا پیار کرنے لگتا ۔
حنا اب بڑی ہو رہی تھی میں اس کی صحت کو دیکھتے ہوئے اسے جمپر شلوار پہنانے لگی تھی، فراکوں میں اس کے کھلے پیر مجھے اچھے نہیں لگتے تھے لیکن اس کا باپ ہمیشہ اس کے ان کپڑوں پر ناراض ہو کر اسے فراک پہنا دیتا ۔
میں پہلے ہی دبلی پتلی تھی بچیوں کی پیدائش کے بعد اور کمزور ہو چکی تھی لیکن بعد کی بچیوں میں سے ثنا تو بہت اچھی صحت مند تھی جبکہ مینا اس کے مقابلے میں ذرا کم تھی لیکن ہم اسے بھی کمزور نہیں کہہ سکتے ۔اور اس بات پر ا ن کا باپ ہمیشہ خود کو ہی شاباشی دیتا رہتا کہ میرا بیج شاندار ہے تب تو پودے اتنے اچھے ہیں۔
ا،سی دوران دلی میں نربھیا کیس ہوا جس نے مجھے بہت پریشان کر دیا، ایک انجانی سی الجھن مجھے ہمیشہ بنی رہنے لگی۔ حنا بڑی ہوتی جارہی تھی اور ساتھ ہی میری فکریں بھی ۔ میں بچیوں کو لے کر ایک انہونی کے خوف میں جیتی تھی ۔ کہیں بھی تو بیٹیاں محفوظ نہیں ، میں سوچتی ،بس حنا جیسے ہی ا ٹھارہ سال کی ہوگی اس کی شادی کر دوں گی پر دوسرے ہی پل خیال آتا ابھی تو اس کی عمر ہی کیا ہے میں بھی کیا کیا سوچنے لگ گئی میں تو اسے بہت پڑھاﺅنگی لکھاﺅنگی ، کالج بھیجونگی میری بیٹی پڑھائی میں بھی اتنی اچھی ہے اور آگے پڑھنا بھی چاہتی ہے میں اس کی خواہشیں نہیں مار وں گی ، میں نے ہر برے خیال کو جھٹک کر سوچا تھا ۔
تب ہی نوٹ بندی کا اعلان ہو گیا جس کی مار چھوٹے تاجروں پر زبردست پڑی حنا کے پاپا جہاں کام کرتے تھے وہبیکری بھی ایک دم بند ہونے کی کگار پر آگئی اور ایک دن بند ہی ہو گئی ، جب پریشانی بہت بڑھنے لگی تب میں نے قدم باہر نکالے اور گھروں میں کام کرنے لگی لیکن میں نے صرف صبح کا ہی کام دیکھا تھا تاکہ بچیاں اسکول جائیں تب جا کر کام کر آﺅں ۔ باجی مجھے زمانے سے بڑا ڈر لگتا ہے بہت خراب زمانہ آگیا ہے ۔ اس کا باپ کام بند ہو جانے کی وجہ سے ذیادہ تر گھر ہی میں رہنے لگا تھا ، ’
“کیوں اسے کوئی دوسرا کام نہیں آتا تھا ؟ میں نے بیچ میں ٹوکتے ہوئے پوچھا
’”نہیں باجی مزدوری کرلینا ان کے بس میں نہیں تھا ڈرائیوری آتی تھی تو کچھ دن بعد وہ کرائے کی رکشا چلانے لگا تھا ۔ وہ صبح ہی ٹفن لے کر دن بھر کے لیے چلا جاتا تھا لیکن کچھ دنوں سے دن میں کھاناکھانے آنے لگا تھا اس کے بعد وہ گھر پر ہی رہتا تھا کہتا تھا کہ سواریاں اس وجہ سے میں دیر تک کام کر لیتی تھی۔ ۔شمع باجی کے یہاں بیٹے کی شادی تھی اس لیے وہ مجھے دیر تک روک لیتی تھیں میں بھی رک جاتی تھی کہ بچیاں اور با پ گھر پر ہیں ، اس دن میں گھر گئی تو مینا اور ثنا پاس میں کھیلنے گئی ہوئی تھیں اور اس کا باپ حنا کے پیروں کی مالش کر رہا تھا مجھے دیکھ کر کہنے لگا “دیکھ تو اس کے پیر درد کر رہے ہیں تجھے توچھوریوں کی پرواہ ہی نہیں کہ اب ان کی کیا عمر ہو رہی ہے دیکھ تو کہیں اس کی کمر درد کے دن تو نہیں آرہے “یہ بات سن کر میں ششدر کھڑی رہ گئی ایک باپ کے منہ سے یہ باتیں !!!!!
اس دن کے بعد سے میں نے شمع باجی کے یہاں دیر تک کام کرنا بند کر دیا اور جلدی گھر جانے لگی تا کہ بچیوں کا دھیان صحیح سے رکھ سکوں ۔ دل بڑا بے چین رہنے لگا تھا عجب سی چھٹپٹاہٹ رہتی۔
ادھر باپ کا بیٹی سے پیار دلار یونہی چلتا رہا ،لیکن کچھ دن سے حنا میں تبدیلیاں نظر آنے لگی تھیں ، جانے کیا ہوا تھا اسے کہ وہ اپنی سہیلی رضیہ جو تین گھر چھوڑ کر رہتی تھی ، کے گھر ذیادہ جانے لگی تھی وہیں پڑھائی کرتی ، گھر میں مجھ سے چپکی چپکی رہتی لیکن ذیادہ بات نہیں کرتی اور نہ ہی باپ کے دلار پر اب وہ پہلے کی طرح چہکتی تھی ۔ اس کا باپ پکارتا رہ جاتا اور وہ گھر سے نکل جاتی کہ مجھے بہت پڑھائی کرنا ہے۔ ۔کبھی کبھی آواز پر پلٹ بھی آتی لیکن گم سم سی رہتی ۔میں اس کے رویے پر حیران رہ جاتی ،سوچتی شاید عمر اور جسمانی تبدیلیوں کا اثر ہے ، یا پھر کسی لڑکے سے تو دوستی نہیں ہو گئی ؟ کئی طرح کے خیالات میرے ذہن میں آنے لگے تھے ۔ادھر اس کے رشتے بھی آنے لگے تھے ، لیکن ہم منع کردیتے تھے کہ ابھی ہماری بچی پڑھائی کر رہی ہے لیکن اس کے باپ کا دوست رفیق جب ایاز کا رشتہ لے کر آیا تو ہم سوچنے پر مجبور ہو گئے کیونکہ لڑکا نہ صرف یہ کہ خوب صورت تھا بلکہ سرکاری اسکول میں چپراسی بھی تھا ان لوگوں کی بس ایک ہی شرط تھی کہ شادی چھ مہینے کے اندر ہی کر دی جائے کیونکہ ایاز کی ماں بیمار تھی اور گھر میں کوئی نہ تھا وہ لوگ چاہتے تھے کہ گھر میں جلدی بہو آجائے تاکہ اس کی ماں کا اکیلا پن دور ہوجائے ۔ میں نے بہت کہا کہ ابھی میری بچی بہت چھوٹی ہے اور پڑھ بھی رہی ہے لیکن انہوں نے وعدہ کرلیا کہ وہ اسے ضرور پڑھائیں گے باجی اور کیا چاہیے تھا ہمیں ۔
میں نے حنا کو جب اس رشتے کے بار ے میں بتایا اس نے شرما کر رضامندی دے دی ۔بس پھر کیا تھا ہم دونوں میاں بیوی اس کے بیاہ کی تیاری میں لگ گئے ۔
اس کا باپ حنا کی شادی کی تیاریاں تو کر رہا تھا لیکن بڑے اداس من سے ، اسے اپنی بیٹی کی جدائی کا غم بری طرح پریشان کر رہا تھا ، بار بار یہی کہتا کہ ہم نے بہت جلدی رشتہ کر ڈالا ہے ، کئی بار میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ آج نہیں تو کل شادی تو کرنا ہی تھی نا اچھا رشتہ نکل جاتا اور یہ بھی تو دیکھو کتنے اچھے لوگ ملے ہیں اسے آگے پڑھائیں گے بھی ۔اس دن بھی ہم دونوں بیٹھے پیسوں کا حساب کر رہے تھے کہ کتنا قرضہ لینا پڑیگا وہ کہنے لگا چاہے جو بھی ہو شادی تو میں بہت دھوم دھام سے کرونگا باتیں کرتے کرتے وہ ایک دم اداس ہو گیا اس کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا عجیب سے لہجے میں کہنے لگا :
’ “ایک بات تو بتا آسیہ بیج ہم ڈالیں کھیتی ہم کریں بیج انکورت ہو تو دیکھ بھال بھی ہم کریں ،پودے کو بڑا کریں اور جب فصل تیار ہو جائے تو سالا کوئی دوسرا کاٹنے کے لیے آجائے یار یہ سمجھ میں نہیں آتی ؟”
اس کی با ت سن کر میں سن سی ہو کر رہ گئی کیا کہہ رہے ہو تم حنا کے پا پا !!!!!
کتنی خراب بات کر رہے ہو تم نشے میں تو نہیں ہو کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو ؟”
جبکہ وہ کسی نشے کی چیز کو کبھی چھوتا بھی نہیں تھا ۔ وہ کیسی بات کر گیا تھا
“ارے نہیں رے آسیہ وہ ہنسنے لگا ایسا کچھ نہیں بس یونہی ایک بات دماغ میں آگئی سو کہہ دی تو تو سچ مچ بڑی بھولی ہے پریشان ہی ہو گئی چل چھوڑ اس بات کو لا مہمان کون کون بلانے ہیں ؟”۔ میں مہمانوں کے نام گنوانے لگی لیکن دل بڑا بے چین سا ہو گیا تھا ،کبھی خود کو سمجھاتی کہ میں اتنی کیوں پریشان ہو جاتی ہوں یونہی کہہ دی ہوگی ۔میں نے اپنے آپ کو سمجھا لیا کہ نہیں باپ ہے بد قماش بھی نہیں ہے نہ ہی اس میں کوئی بری عادت ہے نہ نشہ کرتا ہے نہ جوا کھیلتا ہے جو بھی کماتا ہے سب لاکر گھر میں مجھی کو دے دیتا ہے ۔کبھی باہر بھی اس نے کسی پر غلط نظر نہیں ڈالی میری ہی سوچ خراب ہے ۔
اب شادی کے دن بہت قریب تھے کہ
حنا کی طبیعت کچھ خراب ہوگئی تھی ہاتھ پیروں میں درد کے ساتھ اسے ہلکا سا بخار بھی آگیا تھا ۔وہ اندر کمرے میں سوئی تھی ، اس کا باپ بھی جلدی ہی گاڑی لے کر نکل گیا تھا ، بچوں کو اسکول بھیجنے کے بعد میں بھی کام پر چلی گئی لیکن میرا دل حنا کی طرف لگا رہا کہ کہیں اس کا بخار تیز تو نہیں ہوگیا میں نے زویا باجی کے گھر کا کام ختم کرکے بجائے سونی دیدی کے یہاں جانے کے سوچا کہ پہلے ایک نظر حنا کو دیکھ آﺅں اور گھر کی طرف چل پڑی ۔ گھر میں گھستے ہی میں نے حنا کو آواز دی لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا ارے کیا ابھی تک سو رہی ہے بیٹا ؟ بولتے بولتے تیزی سے میں اندر کے کمرے کی طرف گئی وہ بخار میں بے سدھ پڑی تھی اور ا س کا باپ اس کے پیر سہلا رہا تھا ا س کے ہونٹوں پر خباثت بھری مسکراہٹ تھی جس نے مجھے دہلا کر رکھ دیا مجھے دیکھتے ہی چہرے پر فکر مندی لاتے ہوئے کہنے لگا کہ:’ اسے دیکھ کتنا بخار ہے ،
وہ تو اچھا ہوا میں جلدی گھر آگیا بچی کیسی بخار میں جل رہی ہے تجھے تو کوئی فکر ہی نہیں ،کیسی ماں ہے تو ۔‘
میں نے حنا کی پیشانی کو چھوا تیز تپ رہی تھی ،
میں نے جلدی سے اس کی پیشا نی پر پانی کی پٹیاں رکھنا شروع کردیں ۔ہوش میں آنے پر حنا کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے وہ چپ تھی کچھ نہیں بول رہی تھی ۔میں اس سے پوچھتی رہی بٹیا کیا ہوا ہے؟ کیا ہو رہا ہے ؟ ہم ابھی ڈاکٹر کے یہاں چلیں گے ،تم جلدی ٹھیک ہو جاﺅگی مگر وہ خاموش ایک ٹک بس مجھے دیکھے جارہی تھی اس کی آنکھوں میں درد کی لہریں تھیں خوف کے سائے تھے ایک دہشت زدہ ہرنی کا سا خوف ، ،وہ کسی حال میں ڈاکٹر کے یہاں جانے کو تیار نہیں ہوئی ۔
اور پھر رات نجانے کس پہر وہ ایک بھیڑیے سے بچنے کی خاطر بھیڑیوں کی دنیا میں گم ہوگئی ۔
اور میرے کا نوں میں بس یہ آواز گونجتی رہ گئی
”آسیہ بیج ہم ڈالیں کھیتی ہم کریں بیج انکورت ہو تو دیکھ بھال بھی ہم کریں ،پودے کو بڑا کریں جب فصل تیار ہو جائے تو سالا کوئی دوسرا کاٹنے کے لیے آجائے “

عشرت ناہید ۔ لکھنو انڈیا

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک افسانہ از ڈاکٹر عشرت ناہید