- Advertisement -

لیڈی ڈیانا ،بے نظیر اور حامد میر

ایک اردو کالم از روبینہ فیصل

لیڈی ڈیانا ،بے نظیر اور حامد میر

جب تمام لوگ ایک واقعہ یا شخص یا بیان کو لے کر مکھی پر مکھی مار رہے ہوں تو میں عام طور پر ایسی چیزوں پر لکھنے سے اجتناب کرتی ہوں کیونکہ اس وقت دو قوتیں سرگرم ہوتی ہیں ایک وہ جو پروپیگنڈہ کرنا چاہ رہی ہوتی ہیں دوسری وہ جو اسے جھٹلانا چاہ رہی ہوتی ہیں جیسے ہم نے ملالہ کیس میں دیکھا ۔ ہمارے جیسے غریب مسکین بیٹھ کر گردبیٹھنے کا انتظار کرتے ہیں کیونکہ ہم تو یہ بھی نہیں سننا چاہتے کہ:
عمر بھر ہم یونہی غلطی کرتے رہے غالب
دھول چہرے پر تھی ہم آئینہ صاف کرتے رہے
آج بحرِ ظلمات میں ہم بھی اپنا گھوڑا دوڑائیں گے ۔ اس گھوڑے کو انصار عباسی کے ISIکے چیف کے استعفی کے مطالبے نے چونکایا اور پھر جگایا ۔حامد میر پر کراچی میں ہونے والے حملے کے بعد ہر دوسرے تیسر ے واقعے کی طرح یہاں بھی لوگ اپنی اپنی رائے کے ساتھ تقسیم ہونے لگے ۔ اچھے وقتوں میں کبھی پاکستان میں صرف دائیں بازو اور بائیں بازو کی جنگ ہوتی تھی ۔اب تو ہر واقعے کے اوپر دو رائے ایسی زور آوری سے بنتی ہیں کہ ہر وقت دو گروپ تیار ملتے ہیں اور لازمی نہیں کہ آج کی تاریخ میں رائے پر جو ایک گروپ بنا ہے وہ کل کسی اور ناگہانی کے بعد اُسی گرو پ میں ہی ہوگا جیسے طالبان اینٹی طالبان ،آرمی ،اینٹی آرمی ، جمہوری اینٹی جمہوری ، سیکولرزم بہ مقابلہ شریعت، ملالہ اینٹی ملالہ ، شاہد آفریدی اینٹی شاہد آفریدی وغیرہ وغیرہ ۔مٹ گیا ہے تو ایک ہی گروپ اور وہ ہے غریب کے لئے آواز اٹھانے والا بغیر کسی ایجنڈے کے بمقابلہ کسی امیر کے ۔ اس گروپ کا کوئی ممبر نہیں۔
جیسے پرویز مشرف کو ہم پوری فوج نہیں کہہ سکتے اسی طرح حامد میر کو ہم پوری صحافت نہیں کہہ سکتے ۔ جس طرح مشرف کے بارے میں دلیل ہے کہ اس کی کمیوں کجیوں اور گناہوں کی سزا دینا ، فوج کو سزا دینے کے مترداف نہیں ہے ۔ اسی طرح اگر صحافت کے نام پر مافیا بنا دیا جائے تو وہ ایک خاص گروہ کی نمائندگی تو کرے گا لیکن پوری صحافت کی نہیں۔
پرویز مشرف پوری فوج نہیں حامد میر پوری صحافت نہیں ۔ ہر انسان کسی ادارے کے ساتھ منسلک ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی انفرادی حیثیت بھی رکھتا ہے جس کے تحت وہ گناہ اور ثواب کرتا ہے ۔ اگر PEMRAکے قواعد و ضوابط میں یہ لکھا ہے کہ پاک فوج کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوگی تو اس پرنہ عمل کرنے والے کو کیا کہیں گے ؟مظلوم کے لئے آواز ضرور اٹھائیں مگر مظلوم یا ضرورت مند وہی نہیں جو آپ کے ایجنڈا میں فٹ آتا ہو ،ایجنڈا کے باہر بھی مظلومیت اور غربت بکھری پڑی ہے ۔
میں یہ سوچ رہی تھی اگر کوئی انڈین صحافی اٹھ کر یہ کہہ دے کہ مجھے” را “سے خطرہ ہے اور یہ خبر مرچ مصالحہ لگا کر انڈیا کے سب چینلز چلائیں تو ہم پاکستانیوں کو کتنی خوشی محسوس ہوگی ۔مگر افسوس انڈیا نے ہمیں کبھی ایسی خوشی کو موقعہ نہیں دیا باوجود اس کے کہ ہم انہیں ہر دوسرے دن خوش کرتے ہیں ۔ ہم نہ صرف فوج اور عوامی حکومتوں (اگرچہ وہ عوام جو قبروں سے اٹھ کر اور گھروں سے نکلے بغیر بھی ووٹ کاسٹ کر آتی ہے ) کے ڈسے ہوئے ہیں بلکہ ہم نوکر شاہی ، اعلی عدلیہ ، اور اعلی صحافیوں کے بھی ڈسے ہوئے ہیں ۔ مگر وہ عام آدمی ،عام پولیس والا ، عام سرکاری افسر ،عام وکیل ،عام فوجی اور عام صحافی جو تاریک راہوں میں مارے جاتے ہیں وہ سب مشترکہ نصیب کے مالک ہیں ، ایک ہیں ، ان کا ایک گروپ ہے “عام گروپ” اور اگر کسی کو اس کے دشمن گروپ کو پہچانا ہے تو وہ ہے اشرفیہ کا گروپ ۔
حامد میر کی گاڑی کو گولی اور شائد پیٹ میں بھی لگی ہو مگر کئی ایسے صحافی ۔۔عام غریب صحافی جنہیں کبھی تنخواہ بھی وقت پر نہیں ملتی ہوگی ،وہ کئی مارے گئے ۔ ہم نے آج ایک اعلی امیر لاکھوں میں تنخواہ پانے والے صحافی پرحملے کے بدلے جب ملک کی سیکورٹی ایجنسی کے چیف کو لائن حاضر کر دیا اور استعفی مانگ لیا تو ہم نے ان غریب صحافیوں کی روح کو، جن کی جان صحافت کے کار زار میں گئی ،شرمندگی میں مبتلا کر دیا ،ان کو احساس دلایا کہ تمھاری زندگی بھی محروم اور تمھاری موت بھی بے نام ۔یہ پڑھ کر لوگ کہیں گے ہر کوئی بڑا اور خاص نہیں ہوتا ۔ کیا کرؤں میرے نزدیک سب انسان برابر ہیں، گوشت پوست کے سانس لیتے انسان ۔میں سمجھتی ہوں اس دنیا پر ،یہاں کے پانی ، ہوا اور مٹی پر سب انسانوں کا برابر کا حق ہے ۔ مجھے اونچے اور نیچے انسانوں کی سمجھ ہی نہیں آتی ۔
چلیں دنیا کے حساب سے بڑے لوگوں کی بات کر لیتے ہیں ۔ 31اگست 1997 کو برطانیہ کی شہزادی ڈیانااور مصر کے کروڑ پتی محمد الفائد کے بیٹے دودی الفائد سرنگ میں کار ٹکرانے سے دنیاسے کوچ کر گئے ۔ برطانوی حکومت اور شاہی خاندان نے اسے حادثہ قرار دیا ۔مگر دودوی کے باپ نے شک کا ظہار کیا کہ شاہی خاندان نے یہ قتل کروایا ہے ۔ اس کے بعد باپ نے lord stevenپولیس چیف جس کی سرپرستی میں تحقیق اور تفتیش ہوئی اسے شاہی حکومت کا toolاور اسکی جاری کردہ 900صفحات کی رپورٹ کو “garbage”قرار دے دیا ۔نہ شاہی خاندان نے محل چھوڑا اور نہ استعفی دیا ۔ لاکھوں کروڑوں دلوں کی شہزاد ی صرف زخمی نہیں ہوئی تھی دنیا سے ہی چلی گئی تھی مگر جن پر شک کیا گیا انہوں نے کیا کیا ؟ایک تفتیشی رپورٹ اور بس ۔انصار عباسی کے فارمولے کے حساب سے استعفی دینا چاہیئے تھا ۔ اور اپنے آپ کو بے قصور ثابت کرنے کے لئے غیر جانبدار تفتیش کروانی چاہیئے تھی ۔ دنیا کے مہذب ملک میں بھی یہ نہ ہوا ۔ اتنے مقبول اور بااثر لوگ مر گئے مگر اسرار اسرار ہی رہا ۔
Eric Margolisامریکی اور کینڈا کے اخبار ٹورٹنو سن کا قابلِ اعتماد معروف صحافی نے اپنے ایک کالم میں جو اس نے بے نظیر کے سر عام وحشیانہ قتل پر تھا ،لکھا ، بے نظیر جب پاکستان گئی تو مجھے اس کی سکیورٹی کی فکر تھی ، ای میل میں اسے ہدایت کی کہ باہر ذیادہ نہ نکلنا ، اس نے جواب میں لکھا کہ ہمارے ملک میں لوگوں کے درمیان جائے بغیر سیاست نہیں ہوسکتی ۔ پھر لکھتا ہے” اس نے مجھے فون پر کہا اگر مجھے قتل کر دیا گیا تو اس کے ذمہ دار چوہدری برداران ہونگے جو کہ صدر مشرف کے قریبی اور بااثر ساتھی ہیں ۔” بے نظیرزخمی نہیں بلکہ لاکھوں پاکستانیوں کے دلوں پر راج کرنے والی بھٹو کی بیٹی مار دی گئی ۔ اس نے بھی شک کا اظہار کیا تھا، کیا ہوا ؟ مشرف سے اس بنا پر کسی نے استعفی مانگا ؟ بے نظیر کے شوہر نامدار نے مشرف صاحب کو پروٹوکول کے ساتھ رخصت کیا ۔
دسمبر2007میں بی بی کو قتل کر دیا گیا اور فروری 2008کے الیکشن کے نتیجے میں ان کے شوہر صدر بن کر پانچ سال حکومت میں رہتے ہیں ۔ کیا ان پانچ سالوں میں ان چوہدری برداران کے رہن سہن میں کوئی فرق آیا ؟ایک بھی دن پولیس نے انہیں شاملِ تفتیش کیا ؟ جب تک مشرف کی کا بینہ رہی وہ اسی طرح چہکتے رہے ۔ بے نظیر کا خون سڑکوں سے دھو دیا گیا ۔ Ericہی لکھتا ہے جب میں نے بے نظیر سے ایک دفعہ ملاقات کے دوران پوچھا ضیا الحق کو کس نے مارا ہوگا ۔اس نے نخوت سے جواب دیا ” who cares he is gone “۔لکھتا ہے آج بے نظیر کو پتہ چلے کہ اس کی موت بھی ایک اسرار بن کر رہ گئی ہے ۔ اگر بے نظیر ذاتی رنجش کوبا لائے طاق رکھ کر قاتلوں کا سراغ لگاتی ، اپنے بھائی کے قاتل پکڑواتی جس کا شک بھی اس کے خاندان والوں نے زردار ی پر کیا تھا ،جس نے پھر اس شک کی موجودگی میں پانچ سال صدارت کی ۔استعفے دینے تو دور کی بات۔
صحافی پر حملہ ہوا ،قابلِ مذمت ۔ مگر تفتیش کے بغیر پہلے آدھے گھنٹے میں مجرم defineکر دینا اس سے بھی ذیادہ قابلِ مذمت ۔ اگر گھائل یا مرنے والوں کے شک کے الفاظ پر جایا جائے اور اس بنیاد پر استعفی طلب ہونے شروع ہوجائیں تو بس ہوگیا کام عدالتوں کا اور تحقیقی اداروں کا ۔ اگر حامد میر لیڈی ڈیانا اور بے نظیر سے بھی ذیادہ بااثر اور مقبول شخصیت ہے تو دوسری بات ہے ورنہ تو ایک سیدھا سا فارمولہ ہے اگر الف کو ب سے خطرہ ہے اور وہ اس شک کا اظہار بھی کھلم کھلا کر چکا ہے تو ب جس کے دشمن لام اور میم ہیں ، اس موقعے سے فائدہ اٹھائیں گے۔تو کنفرم کیا ہے ؟

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
پروین شاکر کی ایک اردو نظم