کوئی ان دیکھی فضا تصویر کرنا چاہیئے
خواب کی بنیاد پر تعمیر کرنا چاہیئے
میں بھٹکتا پھر رہا ہوں واہموں کے درمیاں
گرد لپٹی روح کی تطہیر کرنا چاہیئے
جن دنوں دیوانگی ٹھہری ہوئی ہو ذات میں
ایک دنیا ان دنوں تسخیر کرنا چاہیئے
جس صدا میں سو طرح کے رنگ جھلمل کرتے ہوں
وہ صدا ہر حال میں تصویر کرنا چاہیئے
جلد بازی دے گئی ہے رت جگوں کے سلسلے
فیصلے میں تھوڑی سی تاخیر کرنا چاہیئے
اب بگولے مجھ میں ہیں اور میں بگولوں میں خیالؔ
دشت میں دیوانگی زنجیر کرنا چاہیئے
احمد خیال