بسم اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم
سرکارِ دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سنجیدگی و متانت، عظمت و وقار اور خوش سلیقگی کا پیکرِ حسین تھے۔ بلا ضرورت کبھی گفتگو نہ فرماتے اور نہ ہی آواز سے ہنستے تھے۔آپ کا ارشادِ عالیشان ہے :
لا تکثر الضحک فانَّ کثرۃ الضحک تمیت القلب۔
زیادہ نہ ہنسو اس لیے کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے۔(ترمذی شریف)
سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جاں نثاروں اور غلاموں کی دل جوئی اور دل بستگی کے لیے کبھی کبھار خوش طبعی فرما لیا کرتے تھے۔ آپ اپنے غلاموں کے ساتھ دل لگی فرما کر ان کے قلوب و اذہان کو جِلا بخشتے اور ان میں سچی محبت اور بے لوث پیار کے چشمۂ صافی جاری فرما دیا کرتے تھے۔
سیرتِ طیبہ اور احادیثِ نبویہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضورِ انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اکثر تبسم فرمایا کرتے جس سے غم زدوں، بے کسوں، بے بسوں اور بے نواؤں کو تسکین و راحت ملتی اور روتوں، گریہ زاری کرنے والوں اور اشک باروں کو فرحت و تازگی کا احساس ہوتا اور وہ اپنا رنج و غم سب بھول جایا کرتے تھے۔
امام ترمذی نے حارث بن جزء رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے :
ما رایت احداً اکثر تبسماًمن رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم و فی روایۃ ما کان ضحک رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم الاتبسماً۔
حضرت حارث نے کہا کہ میں نے حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کو مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا۔(ترمذی شریف)
حضرت عمرہ بنت عبدالرحمن رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لاتے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ کار کیا تھا؟آپ نے فرمایا: آپ کا سلوک عام لوگوں کے سلوک کی طرح تھا۔
اکرم الناس خلقاً کان ضاحکا بساماً۔
’’ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ کریم الاخلاق تھے ہنستے بھی تھے مسکراتے بھی تھے۔‘‘
حضرت حبشی بن جنادہ رضی اللہ عنہ حضورِ انور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
کان افکہ الناس خلقاً۔
’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوق سے بڑھ کر خوش طبع تھے۔‘‘
لیکن آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ ظرافت، خوش طبعی، دل لگی اور دل آویز تبسّم اعتدال اور میانہ روی کا مرقع تھا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انی لا مزح ولآاقول الا حقاً۔
’’میں مزاح تو کرتا ہوں لیکن ہمیشہ سچ کہتا ہوں۔‘‘
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہنسی صرف تبسم ہوا کرتی تھی۔‘‘ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ میں نے کبھی ایسا نہیں دیکھا کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کے ساتھ ہنسی مذاق کیا ہو آپ عام لوگوں کی طرح دوسروں کے ساتھ ناشائستہ ہنسی مذاق نہیں فرماتے تھے، صحابہ آپ کی مجلس میں ایسی سنجیدگی و متانت سے بیٹھتے کہ گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔‘‘(جمالِ مصطفی ﷺ)
حضورِ انور صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش طبعی کی وضاحت کرتے ہوئے ام نبیط رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :’’ایک دفعہ ہم اپنی ایک نوجوان بچی کو اس کے خاوند، جو قبیلۂ بنی نجار کا فرد تھا، کے پاس لے جا رہی تھیں۔میرے ساتھ بنی نجار کی عورتیں بھی تھیں۔میرے پاس دف تھی جو میں بجا رہی تھی اور میں کہہ رہی تھی۔
اتیناکم اتیناکم فحیونا نحییکم
’’ہم تمہیں سلام کہتی ہیں تم ہمیں سلام کہو۔‘‘
ولولا الذہب الاحمر ماحلّت بوادیکم
’’اور اگر تمہارے پاس سرخ سونا نہ ہوتا تو یہ عروسہ تمہاری وادی میں نہ اترتی۔‘‘
ہم اس طرح گز ر رہی تھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ہمارے پاس کھڑے ہو گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اے ام نبیط یہ کیا کر رہی ہو؟میں نے عرض کی میرا باپ اور میری ماں حضور(ﷺ) پر قربان، یارسول اللہ !یہ قبیلۂ بنی نجار کی دلہن ہے جسے ہم اس کے خاوند کے پاس لے جا رہے ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تم کیا کہہ رہی تھیں ؟ میں نے اپنے وہ گیت سنائے تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ولولا الحنطۃ السمرآء ُ ما سمنت عذاریکم۔
’’اگر یہ گندم نہ ہوتی تو تمہاری یہ کنواریاں اتنی موٹی نہ ہوتیں۔‘‘
حضرت علی بن ربیعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی سواری کے لیے گھوڑا لایا گیا آپ نے جب اس کی رکاب میں پاؤں رکھا تو بسم اللّٰہ کہا، پھر اس کی پیٹھ پر سوار ہوئے تو الحمد للّٰہ فرمایا، پھر سواری کی دعا پڑھی، پھر تین بار الحمد للّٰہ اور اللّٰہ اکبر کہا اور پھر یہ دعا پڑھی :
سبحانک انی ظلمت نفسی فاغفرلی فانہ لایغفر الذنوب الا انت۔
’’یارب تو پاک ہے بے شک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا، تو مجھے بخش دے تیرے سوا کوئی گناہ معاف کرنے والا نہیں ہے۔،،یہ کہہ کر آپ ہنس پڑے۔
میں نے پوچھا !یا امیر المؤمنین! آپ کس بات پر ہنسے؟فرمایا!میرے سامنے ایک بار حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا تھا اور پھر آپ ہنسے تھے وجہ پوچھنے پر آقا علیہ السلام نے فرمایا تھا:’’جب بندہ کہتا ہے،یارب میرے گناہ بخش دے،اور بزعمِ خویش یہ سمجھتا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی میرے گنا ہ معاف کرے گا اور کوئی بخشنے والا نہیں تو اللہ تعالیٰ بندے کی اس بات سے خوش ہوتا ہے۔،، اس بات پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسکرائے تھے اور اس سنت کی پیروی میں سیدنا علیِ مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ بھی مسکرائے۔اس سے یہ واضح ہو ا کہ مسکرانا پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور شمع رسالت کے پروانے کس طرح سے آپ کی محبت و الفت میں آپ کی ایک ایک اد ا کو ادا کرنے میں مخلص تھے۔
اب حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ ظرافت، شگفتہ مزاجی، خوش طبعی اور دل آویز تبسم کے بارے میں مزید چند احادیثِ طیبہ نشانِ خاطر فرمائیں۔
حضورِ انور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت انس رضی اللہ عنہ سے خوش طبعی کے طور پر فرماتے:’’اے دوکانوں والے۔،، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں گھل مِل جایا کرتے تھے۔میرا ایک چھوٹا بھائی تھا، اس کا بلبل مر گیا، وہ بڑا افسردہ اور مغموم تھا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی افسردگی کو دور کرنے کے لیے فرمایا:
یا ابا عمیر مافعل النغیر
’’اے ابو عمیر تیرے بلبل کو کیا ہوا؟‘‘
یہاں ’’عمیر‘‘ اور ’’نغیر‘‘ جیسے ہم قافیہ الفاظ کے استعمال سے خوش طبعی فرمائی گئی ہے۔
ایک دیہاتی صحابی حضرت زاہر بن حرام رضی اللہ عنہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں دیہات کی چیزیں بہ طورِ تحفہ لایا کرتے تھے۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم ان کو شہر کی چیزیں تحفہ دیا کرتے تھے۔ وہ اگرچہ زیادہ خوش شکل نہیں تھے مگر حضورِ انور صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بہت زیادہ محبت فرماتے۔ ایک دن وہ بازار میں بیٹھے کچھ سامان بیچ رہے تھے۔ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے سے آ کر آنکھوں پر اپنا دستِ مبارک رکھ دیا اور فرمایا:
من یشتری ہٰذا العبدَ؟
’’اس غلام کو کون خریدتا ہے؟‘‘
مزاح کا یہ انداز کتنا دل کش، حسین و جمیل اور جود و عطا والا ہے کہ سرکارِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابی حضرت زاہر (رضی اللہ عنہ)سے خوش طبعی تو فرما رہے ہیں ساتھ ساتھ اُن کی قسمت بھی چمکا رہے ہیں انہیں خود اپنی زبانِ نبوت سے’’غلام‘‘ کہہ کر پکار رہے ہیں۔
ایک شخص نے حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری مانگی ، ارشاد فرمایا:
اناحاملوک علیٰ ولد الناقہِ۔
’’ہم تمہیں اونٹنی کے بچے پر سوار کریں گے۔‘‘
اس نے عرض کی میں اونٹنی کے بچے کا کیا کرونگا؟فرمایا: اونٹ بھی تو اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔
حضرت محمود بن ربیع انصاری خزرجی رضی اللہ عنہ پانچ سال کے تھے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لے گئے ان کے گھر میں ایک کنواں تھاجس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی نوش فرمایا اور خوش طبعی کے طور پر پانی کی ایک کلّی حضرت محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ کے چہرے پر ماری۔(بخاری شریف) محدثینِ کرام علیہم الرحمۃ فرماتے ہیں کہ اس کی برکت سے ان کو وہ حافظہ حاصل ہوا کہ اس قصہ کو یاد رکھتے اور بیان فرماتے اس وجہ سے صحابہ میں شمار ہوئے۔
ابن عساکر اور ابو یعلیٰ صحیح راویوں کے واسطہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حریرہ پکایا اور لے کر حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی حضرت سودہ رضی اللہ عنہا بھی حاضر تھیں۔ میں نے انہیں کہا کہ آپ بھی کھائیں۔انہوں نے کھانے سے انکار کیا۔میں نے کہا یا تو کھاؤ یا میں یہ حریرہ تمہارے چہرے پر مل دوں گی۔انہوں نے پھر بھی کھانے سے انکار کیا۔ میں نے اس حریرہ میں ہاتھ ڈالے اور اسے لے کر حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے چہرہ پر مل دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا سر اپنی رانِ مبارک پر رکھا اور حضرت سودہ سے فرمایا:تم بھی اسی طرح اس حریرہ کو عائشہ کے چہرہ پر لیپ کر دو۔چنانچہ حضرت سودہ نے میرے چہرے پر وہ حریرہ مل دیا۔ہم دونوں کو اس حالت میں دیکھ کر سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم خوب ہنسے۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں :حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کہ میں اس آدمی کو جانتا ہوں جو سب سے پہلے جنت میں داخل ہو گا اور اس کو بھی جانتا ہوں جو سب سے پہلے جہنم سے نکالا جائے گا۔ایک آدمی کو قیامت کے روز پکڑ کر لایا جائے گا اور فرشتوں کو کہا جائے گا پہلے اس کے چھوٹے چھوٹے گناہ پیش کرو اور اس کے بڑے گناہوں کو پوشیدہ رکھو۔ جب اسے کہا جائے گا کہ یہ یہ گناہ تم نے کیے۔وہ اقرار کرے گا اور انکار نہیں کرے گا اور اسے ان چھوٹے گناہوں کا کوئی خوف نہ ہو گا البتہ اسے یہ اندیشہ ضرور ہو گا کہ اگر اس کے بڑے گناہ پیش کیے گئے تو اس کا انجام کیا ہو گا۔ جب اس کے سامنے جو گناہ پیش کیے جائیں گے ان کو وہ تسلیم کرے گا فرشتوں کو فرمایا جائے گا: اعطوہ مکان کل سیئۃ عملہا حسنۃً ہر گناہ کے بدلے جو اس نے کیا ہے اس کو نیکی دے دو۔ وہ کہے گا میرے پروردگار!میرے تو ایسے گناہ بھی تھے جو یہاں نہیں دیکھ رہا۔‘‘اس کا مقصد تھا کہ وہ بڑے گناہ بھی پیش کیے جائیں اور ان کو بھی نیکیوں سے بدل دیا جائے۔حضرت ابو ذر فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خوب ہنسے یہاں تک کہ دندانِ مبارک نمایاں ہو گئے۔
حضرت امام ترمذی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک بوڑھی صحابیہ بارگاہِ نبویہ(ﷺ) میں عرض گزار ہوئی، یارسول اللہ (ﷺ)!دعا فرمائیے اللہ تعالیٰ مجھ کو جنت میں داخل فرمائے۔سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے از راہِ مزاح اسے کہا کہ بوڑھی عورت جنت میں نہیں جائے گی۔ اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا۔حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا کرنے کے لیے مسجد تشریف لے گئے۔ اس بوڑھی عورت نے رونا شروع کر دیا، خوب روئی یہاں تک کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی، یارسول اللہ (ﷺ)!جب سے آپ نے اس بوڑھی عورت کو یہ فرمایا ہے کہ کوئی بوڑھی عورت جنت میں نہیں جائے گی۔اس وقت سے زار و قطار رو رہی ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر ہنس پڑے، فرمایا:بے شک جنت میں کوئی بوڑھی عورت نہیں جائے گی(بلکہ جوان ہو کر جائیں گی)، ارشادِ باریِ تعالیٰ ہے :
انآ انشانٰہن انشآء ً فجعلنٰہن ابکاراً ۔
’’بے شک ہم نے ان عورتوں کو خاص طور پر پیدا کیا اور پھر انہیں کنواریاں بنایا۔‘‘(شمائلِ ترمذی)
حضرت امام احمد ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ایک دفعہ میں ایک سفر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب تھی۔ میری عمر اس وقت چھوٹی تھی اور میرا بدن ہلکا پھلکا تھا۔حضور نے لوگوں کو کہا تم آگے چلے جاؤ وہ سب آگے چلے گئے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: آؤ آپس میں دوڑ لگائیں۔ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوڑ لگائی۔میں آگے نکل گئی۔ حضورِ انور صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔ کچھ عرصہ بعد میں فربہ ہو گئی وہ واقعہ میں بھول گئی۔ پھر ایک مرتبہ سفر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی۔ حضور صلی اللہ علی ہوسلم نے لوگوں کو حکم دیا تم آگے چلے جاؤ۔ جب لوگ آگے چلے گئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا:آؤ دوڑ لگائیں۔ چنانچہ اس دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آگے نکل گئے۔آپ ہنستے رہے، فرمایا:
ہٰذہٖ بِتِلکَ کہ اب بدلہ چکا دیا گیا۔
حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں کہ میں ایک دن بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوا، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم قبا میں تشریف فرما تھے۔ وہاں پکی ہوئی اور نیم پختہ کھجوریں رکھی تھیں۔ میری ایک آنکھ دکھتی تھی میں نے کھانے کے لیے ایک کھجور اُٹھا لی۔ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اتاکل التمر علیٰ عینیک وانت رمِدُُ ۔
’’کیا تم کھجور کھا رہے ہو حال آنکہ تمہاری آنکھ دکھتی ہے؟‘‘میں نے عرض کی :یارسول اللہ! میں اپنی صحیح آنکھ کی طرف سے کھا رہا ہوں۔ حضور (ﷺ)ہنس پڑے۔
امام ابوداؤداسنادِ جیّد سے حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے روایت کرتے ہیں : ایک انصاری تھا جو بڑا خوش طبع تھا۔جب وہ قوم سے بات کرتا تو انہیں خوب ہنساتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز تشریف لائے اور جو چھڑی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک میں تھی اس کے ساتھ اس کی کمر کو کھجلایا۔ اس شخص نے عرض کی، یارسول اللہ(ﷺ) !میں تو بدلہ لوں گا۔ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بے شک بدلہ لے لو۔اس نے عرض کی، یارسول اللہ(ﷺ)! جب آپ نے مجھے کھجلایا تو میں نے قمیص نہیں پہنی تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قمیص پہنی ہوئی ہے اس طرح اگر کروں تو بدلہ نہیں ہو گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص اوپر اٹھائی۔ وہ دوڑ کر آیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو گلے لگایا اور آپ کی کمرِ پاک کو بوسے دینے لگا، عرض کی! میں نے یہ سارا حیلہ اس مقصد کے لیے کیا تھا۔
امام بخاری نے حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ایک سفر میں مجاہدین کے ساتھ جو بوجھ تھا وہ بہت گراں محسوس ہونے لگا سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا : تم اپنی چادر بچھاؤ۔ چنانچہ انہوں اپنا بوجھ اس میں ڈال دیا۔رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اِحْمِل فَاَنتَ سَفِیْنَۃُُ ۔
’’اسے اٹھا لو تم تو کشتی ہو۔‘‘۔۔۔۔۔۔یعنی کشتی میں سارا بوجھ سما جاتا ہے اور وہ اٹھا لیتی ہے۔
سبحان اللہ!حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ کے نام کو ذومعنی انداز میں ارشاد فرما کر سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جاں نثار صحابی سے جو خوش طبعی فرمائی، اس سے صحابیِ رسول حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ کا ایمان پختہ ہو جاتا ہے اور وہﷺ وجد و سرور میں کہہ اُٹھتے ہیں کہ :جب آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ’’کشتی ‘‘فرمایا تو اس کے بعد سات اونٹوں کے بوجھ مجھ پر لاد دیا جاتا تو وہ مجھے بھاری نہ معلوم ہوتا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک حدی خواں تھا جو دورانِ سفر ازواجِ مطہرات کے اونٹوں کے سامنے حدی خوانی کرتا تھا۔ ایک دفعہ اس نے حدی کے اشعار کہے تو اونٹوں پر مستی کی کیفیت طاری ہو گئی اور وہ تیز تیز چلنے لگے۔سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حدی خواں کو فرمایا: دَیْحَکَ یَآ اَنْجَشَہ اِرفَقْ بِالْقَوَرِیْر ۔۔۔اے انجشہ! تیرا بھلا ہو کانچ کی نازک شیشوں کے ساتھ نرمی کرو یعنی اونٹوں کو آہستہ چلنے دو مبادا انہیں (ازواجِ مطہرات کو)کچھ اذیت پہنچے۔ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کو کانچ کی نازک شیشوں کہنا۔یہ بھی سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش طبعی اور شانِ ظرافت کا ایک نمونہ ہے۔
محقق علیٰ الاطلاق شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں :بعض احادیث میں جو مزاح اور کھیل وغیرہ کی ممانعت آئی ہے وہ کثرت اور زیادتی سے ہے۔ یعنی جو خوش طبعی اور کھیل وغیرہ اللہ عز و جل کی یادسے اور دینی امور پر غور و فکر کرنے سے غافل کر دے وہ منع ہے اور جو شخص ان کے باعث دینی امور سے غافل نہ ہوسکے اس کے لیے یہ مباح یعنی جائز ہے۔ اور اگر اس سے کسی کی دل جوئی اور کسی سے دلی محبت کا اظہار مقصود ہو جیسا کہ نبیِ کریم رؤف و رحیم صلی اللہ علیہ وسلم کا فعلِ مبارک تھا تو یہ مستحب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ حسنہ میں تواضع اور خوش طبعی نہ ہوتی تو کسی میں یہ قدرت و طاقت نہ ہوتی کہ آپ کی خدمتِ عظمت نشان میں بیٹھ سکتا یا آپ سے کلام کر سکتا کیونکہ آپکی ذاتِ اقدس میں انتہائی درجہ کا رعب و جلال اور شوکت و دبدبہ تھا۔ (۲۰؍۵؍۲۰۰۷)
(حاصلِ مطالعہ کتب:شمائلِ ترمذی، سیرۃالرسول(ﷺ)، جانِ ایمان، جمالِ مصطفی ﷺ)
ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی
مالیگاؤں