کیا حال بیاں کریے عجب طرح پڑی ہے
وہ طبع تو نازک ہے کہانی یہ بڑی ہے
کیا فکر کروں میں کہ ٹلے آگے سے گردوں
یہ گاڑی مری راہ میں بے ڈول اڑی ہے
ہے چشمک انجم طرف اس مہ کے اشارہ
دیکھو تو مری آنکھ کہاں جاکے لڑی ہے
کیا اپنی شررریزی کہیں پلکوں کی صف کی
ہم جانتے ہیں ہم پہ جو یہ باڑھ جھڑی ہے
وے دن گئے جو پہروں لگی رہتی تھیں آنکھیں
اب یاں ہمیں مہلت کوئی پل کوئی گھڑی ہے
ایسا نہ ہوا ہو گا کوئی واقعہ آگے
اک خواہش دل ساتھ مرے جیتی گڑی ہے
کیا نقش میں مجنوں ہی کے تھی رفتگی عشق
لیلیٰ کی بھی تصویر تو حیران کھڑی ہے
جاتے ہیں چلے متصل آنسو جو ہمارے
ہر تار نگہ آنکھوں میں موتی کی لڑی ہے
کھنچتا ہی نہیں ہم سے قدخم شدہ ہرگز
یہ سست کماں ہاتھ پر اب کتنی کڑی ہے
گل کھائے ہیں افراط سے میں عشق میں اس کے
اب ہاتھ مرا دیکھو تو پھولوں کی چھڑی ہے
وہ زلف نہیں منعکس دیدئہ تر میر
اس بحر میں تہ داری سے زنجیر پڑی ہے
میر تقی میر