میں نے غزہ کو جلتے دیکھا
لفظ بول نہ سکے،
قلم لرز گیا
آسمان، جو کبھی دعاؤں سے بھرا تھا،
اب دھوئیں سے سیاہ ہو گیا،
اور ہوا بھی
بارود سے زیادہ
خطرناک ہو گئی،
بچے…؟
ہاں وہی بچے، جن کی ہنسی
کبھی اذانوں سے پہلے گونجتی تھی،
اب خاموشی سی چھا گئی ،
یا قبروں میں سما گئی —
کفن سمیت یا خواب سمیت۔
میری نظم
جب روئی،
تو کاغذ پہ خون اترا،
اور میں سوچنے لگا—
کہ لفظ، کیا کبھی
زندگی بچا سکتے ہیں؟
میں نے اک باپ کو دیکھا
جو اپنے بیٹے کی قبر پہ بیٹھا
مسکرا رہا تھا…
پوچھا،
"غم میں ہنسی کیسی؟”
کہنے لگا:
"شہیدوں کے باپ روئیں تو
دشمن جیت جاتے ہیں!”
غزہ…
تو صرف ایک خطہ نہیں،
تو مزاحمت کا نام ہے،
تو صبر کا دوسرا چہرہ ہے،
اور میں—
میں تیرا شاعر ہوں،
خون سے لکھتا ہوں
تیرے زخموں کی کہانی۔
حافظ حمزہ سلمانی