میری قسمت کہ وہ اب ہیں میرے غمخواروں میں
کل جو شامل تھے تیرے حاشیہ برداروں میں
زہر ایجاد کرو اور یہ پیہم سوچو
زندگی ہے کہ نہیں دوسرے سیاروں میں
کتنے آنسو ہیں کہ پلکوں پہ نہیں آسکتے
کتنی خبریں ہیں جو چھپتی نہیں اخباروں میں
اب تو دریا کی طبیعت بھی ہے گرداب پسند
اور وہ پہلی سی ساکت بھی نہیں پتواروں میں
آپ کے قصر کی جانب کوئی دیکھے ، توبہ !
جرم ثابت ہو تو چن دیجئے دیواروں میں
آج تہذیب کے تیور بھی ہیں قاروں جیسے
دفن ہو جائے نہ کل اپنے ہی انباروں میں
اپنی آواز کو بھی کان ترستے ہیں میرے
جنس گفتار لیے پھرتا ہوں بازاروں میں
تہمتیں حضرت انسان پر نہ دھریئے انور
دشمنی ہے کہ چلی آتی ہے تلواروں میں