ہم کو آیا ہی نہیں مانگنا تو کیا ملتا
تیری تحویل سے ہم جیسوں کو حصہ ملتا
ایک امکان تعلق میں کہیں رہتا تھا
اس لئے پھر سےنیا دل کو بہانہ ملتا
درد ملتا نہ غم عشق میں شعروں کی جزا
ایک آسودہ محبت سے ہمیں کیا ملتا
وہ جو مجھ میں ہے کہیں روز اسے کہتی ہوں
پوری دنیا میں کوئی ایک تو تم سا ملتا
اس کی جانب سے محبت کے حسیں گہنے تھے
کبھی چوڑی کبھی کنگن کبھی جھمکا ملتا
عمر بھر سوچ اسی نکتے پہ مرکوز رہی
کوئی کھڑکی کوئی روزن کوئی رستہ ملتا
اس طرح ملتی ہیں وی اجنبی آنکھیں مخھ سے
جیسے احساس کوئی دل سے پرانا ملتا
صوفیہ بیدار