اردو غزلیاتشعر و شاعریصوفیہ بیدار

بتوں کی آنکھ میں کیا خواب

صوفیہ بیدار کی ایک اردو غزل

بتوں کی آنکھ میں کیا خواب جھلملاتا ہے
رکا ہوا ہو جو منظر تو کون آتا ہے

اسی کے لمس سے زندہ نقوش ہیں میرے
وہ اپنے ہاتھ سے مورت میری بناتا ہے

وہ ظرف دیکھ کے دیتا ہے درد چاہت کے
پھر اس کے بعد محبت کو آزماتا ہے

ردائے چرخ میں ٹانکے ہیں ہجر نے تارے
یہ سوت صدیوں کی خاموشیوں نے کاتا ہے

وفا کا لکھتا ہے انجام عشق سے پہلے
پھر اس کے بعد نگر پیار کا بساتا ہے

تمہارے ہوتے ہوئے خاک ہو گئی کیسے
تمہارے ساتھ مرا کس طرح کا ناتا ہے

رکا ہوا ہے جو منظر وہ اس کا حصہ ہے
بھلا لکیر سے باہر بھی کوئی آتا ہے

صوفیہ بیدار

سائٹ منتظم

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button