بتوں کی آنکھ میں کیا خواب جھلملاتا ہے
رکا ہوا ہو جو منظر تو کون آتا ہے
اسی کے لمس سے زندہ نقوش ہیں میرے
وہ اپنے ہاتھ سے مورت میری بناتا ہے
وہ ظرف دیکھ کے دیتا ہے درد چاہت کے
پھر اس کے بعد محبت کو آزماتا ہے
ردائے چرخ میں ٹانکے ہیں ہجر نے تارے
یہ سوت صدیوں کی خاموشیوں نے کاتا ہے
وفا کا لکھتا ہے انجام عشق سے پہلے
پھر اس کے بعد نگر پیار کا بساتا ہے
تمہارے ہوتے ہوئے خاک ہو گئی کیسے
تمہارے ساتھ مرا کس طرح کا ناتا ہے
رکا ہوا ہے جو منظر وہ اس کا حصہ ہے
بھلا لکیر سے باہر بھی کوئی آتا ہے
صوفیہ بیدار