خوراک غم کو کر لیا جینے کے واسطے
آنسو بچا کے رکھ لیے پینے کے واسطے
گھائل ہوئی ہے زندگی پھولوں کے وار سے
چُنتا ہوں خار زخموں کو سینے کے واسطے
منزل اگر عروج پہ اُس نے بنائی ہے
پاؤں بھی تو بنائے ہیں زینے کے واسطے
زخموں کا تھا علاج مسافت کی دھول میں
یعنی سفر ضروری تھا جینے کے واسطے
مصروفِ عشق گر نہیں بیکار ہے یہ دل
اِ ک بحر لازمی ہے سفینے کے واسطے
جب کُچھ نہیں ملا تو وہاں بیج بو دیئے
کھودی تھی جو زمین خزینے کے واسطے
کس کو دکھائیں عشق کی خدمت کا ہم صلہ
تمغہ ملاہے زخم کا سینے کے واسطے
آوارہ زندگی کے لیے اُس کا ساتھ شاذؔ
جیسے کوئی کنارہ سفینے کے واسطے
شجاع شاذ